علی سد پارہ: ’پہاڑوں کا بیٹا واپس تو آ گیا مگر کاندھوں پر‘
محمد علی سدپارہ کے بیٹے نے والد کی تلاش کی مہم پر جانے کا اعلان کیا تھا (فوٹو: ٹوئٹر)
تقریباً چھ ماہ بعد پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ اور دیگر ساتھیوں کی لاش ملنے کی خبر پیر کے روز سامنے آئی اور چند ہی لمحوں میں سوشل ٹائم لائنز پر وہی تصاویر اور الفاظ بکھیر گئی جو رواں برس فروری میں کے ٹو سر کرنے کی مہم کے دوران ان کے لاپتہ ہونے کے بعد سامنے آئے تھے۔
ایک مرتبہ پھر کوہ پیما محمد علی سدپارہ کا نام ٹوئٹر کی ٹرینڈز لسٹ کا حصہ بنا، ان کے کارنامے گنوائے گئے اور یادیں تازہ ہوئیں۔
البتہ اس مرتبہ ان سے متعلق ہونے والی گفتگو میں ماضی کی طرح کا انتظار اور بے یقینی نہیں بلکہ مغفرت کی دعائیں اور ان کے صاحبزادے کی جواں ہمتی کے لیے داد کا رنگ باقی سب پہلوؤں پر غالب رہا۔
گلگت بلتستان حکومت کی جانب سے پیر کے روز ابتدا میں لاشیں ملنے کی اطلاع دیتے ہوئے شناخت کا عمل باقی رہنے کی اطلاع دی گئی، کچھ دیر بعد تصدیق کر دی گئی کہ ملنے والی لاشیں کے ٹو سر کرنے کی مہم کے دوران لاپتہ ہو جانے والے کوہ پیما محمد علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کی ہیں۔
’پہاڑوں کے بیٹے‘ کا تذکرہ کرنے والے صارفین نے تقریبا چھ ماہ تک ’پہاڑوں کی آغوش میں رہنے‘ کے بعد واپس پہنچنے والے محمد علی سدپارہ کی میت کا ذکر کیا تو جہاں ان کے اہلخانہ کا انتظار ختم ہونے پر شکرگزاری کا اظہار کیا وہیں ان سے متعلق جذبات بھی گفتگو کا نمایاں حصہ رہے۔
مسکان اشرف نے محمد علی سدپارہ سے منسوب جملے شیئر کرتے ہوئے لکھا ’وہ صحیح کہتے تھے میں پہاڑوں کا بیٹا ہوں۔ اتنا عرصہ پہاڑوں نے اپنے بیٹے کو اپنے دامن میں چھپائے رکھا۔ وہ جس کو ہم نے پہاڑوں کی قسم دے کر آنے کا کہا تھا وہ واپس اگیا مگر کندھوں پر۔‘
ٹویپس کی خاصی بڑی تعداد محمد علی سدپارہ کا جسد خاکی ملنے کی اطلاع دوسروں سے شیئر کرتے ہوئے ان کی مغفرت کے لیے دعاگو نظر آئی۔
کچھ صارفین نے لاش ملنے کو اہلخانہ کا انتظار ختم ہونے کی وجہ سے اطمینان کا باعث قرار دیا تو کچھ ایسے بھی تھے جو غم تازہ ہوتا دیکھ کر بے چینی کا اظہار کیے بغیر رہ نہ سکے۔
محمد علی سد پارہ کی یادیں تازہ کرتے ہوئے ان سے متعلق ساتھی کوہ پیماؤں اور قریبی جاننے والوں کے بیانات ٹائم لائنز پر شیئر ہوئے تو مختلف صارفین اپنے محبت بھرے جذبات کا اظہار بھی کرتے رہے۔
محمد علی سدپارہ کا ذکر ہوا تو صارفین ان کے ساتھ لاپتہ ہونے والے غیرملکی کوہ پیماؤں کو بھی یاد کرنا نہ بھولے۔ دونوں غیر ملکی کوہ پیماؤں کی میتیں ان کے عزیزوں کے پاس روانہ کی جائیں گی۔
اپنی جواں ہمتی کے باعث بہت سوں کے لیے قابل تقلید ٹھہرنے والے محمد علی سدپارہ سے متعلق گفتگو کرنے والے کچھ صارفین نے ان کی زندگی کو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ انسانیت کے لیے قابل فخر قرار دیا۔
سوشل میڈیا صارفین جہاں محمد علی سدپارہ سے متعلق یادیں تازہ کرتے رہے وہیں ان کے صاحبزادے کا غم بانٹنے کی کوشش کرتے ہوئے دعائیہ کلمات شیئر کرتے رہے۔
محمد علی سدپارہ اور ان کے ساتھی کوہ پیما رواں برس پانچ فروری کو کے ٹو سر کرتے ہوئے لاپتہ ہو گئے تھے۔
علی سدپارہ کے بیٹے ساجد علی سدپارہ نے والد کے لاپتہ ہونے کے بعد دیے گئے بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے اپنے والد کو آخری مرتبہ ’بوٹل نیک‘ سے بلندی پر چڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔ ساجد علی نے کہا تھا کہ ان کے خیال میں علی سدپارہ اور دو ساتھی کے ٹو سر کر کے واپس آ رہے تھے کہ راستے میں کسی حادثے کا شکار ہوئے ہیں۔