اسلام آباد میں سابق سفیر شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم کے قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور گھریلو ملازمین کو 14 روز کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔
منگل کو ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم جی سمیت چار ملزمان کا جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
پیشی کے موقع پر مقتولہ کے والد شوکت مقدم بھی عدالت میں موجود تھے جو اپنے دوستوں کے ساتھ آئے اور وکلا سے قانونی مشاورت بھی کرتے رہے۔
مزید پڑھیں
-
نور مقدم کیس میں اب تک کیا پیش رفت ہوئی ہے؟Node ID: 585916
ملزمان کی عدالت میں پیشی کے موقع پر کمرہ عدالت میں ذاکر جعفر اور شوکت مقدم کا آمنا سامنا ہوا تو ہتھکڑیاں لگے ذاکر جعفر نے شوکت مقدم کو دیکھ کر سلام کیا جسے شوکت مقدم نے سنا اَن سنا کر دیا۔
منگل کو ہونے والی 2 منٹ کی اس عدالتی کارروائی میں ملزمان کو پیش کیا گیا تو پراسیکیوٹر کی جانب سے ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کی استدعا کی گئی جس پر جج نے شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور سے استفسار کیا تو انہوں نے جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجنے پر کوئی اعراض نہیں کیا۔
عدالت نے ملزمان کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجتے ہوئے 10 اگست کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی۔ ملزمان کے وکیل رضوان عباسی نے ذاکر جعفر اور ان کی اہلیہ کو مقدمے سے خارج کرنے کی استدعا کی تو جوڈیشل مجسٹریٹ نے کہا کہ ہم جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجنے کا فیصلہ دے چکے ہیں آپ کی استدعا ریکارڈ کا حصہ بنا دیتے ہیں۔
وکیل کی درخواست پر عدالت نے ملزم ذاکر جعفر اور ان کی اہلیہ عصمت آدم جی کی کمرہ عدالت میں ملاقات کروائی جس کے بعد پولیس چاروں ملزمان کو لے کر روانہ ہو گئی۔
پیشی کے موقع پر ذاکر جعفر اور شوکت مقدم کا کیا کہنا تھا؟
پیشی کے موقع پر ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر نے اردو نیوز کے سوال پر کہا کہ ’اگر میرا بیٹا قصور وار ہے تو اسے سزا ضرور ملنی چاہیے، میں اس اقدام کی مذمت کرتا ہوں یہ بہت ہی گھناونا جرم ہے۔‘

عدالتی کارروائی کے بعد بھی مقتولہ کے والد شوکت مقدم اپنے دوستوں اور وکلا سے مشاورت کرتے نظر آئے۔
ملزم کے والد اور والدہ سے تفتیش میں اب تک کیا حاصل کیا گیا؟
پراسیکیوٹر ساجد چیمہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ملزمان ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی سے تفتیش مکمل کر لی گئی ہے جس کی وجہ سے ملزمان کی مزید جسمانی ریمانڈ کی درخواست نہیں کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ ’دوران تفتیش پولیس نے ملزمان کے موبائل فون اور کال ڈیٹا حاصل کر لیا ہے اور مزید ان سے کوئی ریکوری نہیں ہو سکتی، کال ریکارڈ کے ڈیٹا کی ہی بنیاد پر تفتیش آگے بڑھے گی۔‘
دوسری جانب اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کی ایک ٹویٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’کسی بھی ملک میں امریکی شہری وہاں کے قانون کے تابع ہوتے ہیں۔ جب کسی ملک میں امریکی شہری گرفتار ہوتے ہیں تو سفارتخانہ ان کی صحت سے متعلق معلوم کرتا ہے اور وکلا کی فہرست دیتا ہے لیکن کسی قسم کی قانونی مشاورت یا عدالتی کارروائی میں حصہ نہیں لیتا۔‘
قبل ازیں مقامی ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں آئی تھیں کہ امریکی سفارتخانے کے حکام نے ملزم ظاہر جعفر سے پولیس کی تحویل میں ملاقات کی ہے۔
خیال رہے کہ 20 جولائی کو اسلام آباد کے تھانہ کوہسار کے علاقے ایف سیون فور میں پاکستان کے سابق سفیر شوکت مقدم کی 28 سالہ بیٹی نور مقدم کو تیز دھار آلے سے گلا کاٹ کر قتل کیا گیا تھا۔ اس واقعے کے اگلے روز پولیس نے ملزم ظاہر جعفر کو گرفتار کر لیا تھا۔
نور مقدم کے قتل پر سماجی حلقوں کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔
