Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دلی: ارے ریموٹ کہاں ہے؟

سشانت سنگھ کی موت کے بعد ان کی سابقہ گرل فرینڈ ریا چکرورتی کو حراست میں لیا گیا تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
اگر آپ کو یاد ہو تو فلم سٹار سشانت سنگھ راجپوت کی زندگی جب اچانک ختم ہوئی تو ان کی افسوس ناک موت کی خبر تقریباً تین مہینوں تک سرخیوں میں چھائی رہی، روزانہ کچھ نئے جھوٹے سچے انکشافات کیے جاتے اور دو تین ٹی وی چینل بس اس کوشش میں لگے رہے کہ کسی طرح سشانت سنگھ کی سابقہ گرل فرینڈ ریا چکرورتی کو اس کیس میں ملوث کیا جائے۔
کوشش یہ ثابت کرنے کی تھی کہ یہ خود کشی نہیں قتل تھا اور اس میں ریا چکرورتی کا کچھ نہ کچھ ہاتھ ضرور تھا۔
عام تاثر یہ ہے کہ جب کوئی الزام ثابت نہیں ہو پایا تو ٹی وی چینلوں کے مسلسل دباؤ میں ریا کو منشیات سے متعلق ایک کیس میں گرفتار کیا گیا لیکن یہ سب تفصیل تو آپ کو معلوم ہی ہے۔

 

اس وقت بھی بہت سے لوگوں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ میڈیا کا ایک حلقہ جان بوجھ کر اس کیس کو سرخیوں میں رکھنے کی کوشش کر رہا ہے (اس وقت اسے بہار کے اسمبلی انتخابات سے جوڑا گیا تھا) اور سشانت سنگھ راجپوت کی موت کو ایک تکلیف دہ سرکس میں تدبیل کر دیا گیا ہے جہاں پبلک کو خوش کرنے کے لیے روز نیا تماشا کیا جاتا ہے۔
لیکن ٹی وی والے وہ دکھاتے ہیں جو آپ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک کاروبار ہے جو ٹی آر پی ریٹنگز سے چلتا ہے، لوگ بڑی تعداد میں کوئی مخصوص پرگرام دیکھتے ہیں تو اسے زیادہ اشتہار ملتے ہیں اور جتنے مہنگے اور زیادہ اشتہار ملتے ہیں اتنی ہی ظاہر ہے کہ آمدنی بڑھتی ہے۔ یہ آمدنی کا کھیل ہے سوشل سروس کا نہیں۔
مارل آف دی سٹوری صرف یہ ہے کہ ٹی وی والے کسی بھی خبر کو اتنا بڑا بنا سکتے ہیں کہ ہم اس کی باریکیوں میں الجھتے چلے جائیں جیسا سشانت سنگھ راجپوت کے کیس میں ہوا۔ جگہ جگہ لوگ بس یہ ہی ذکر کرتے نظر آتے تھے کہ یار کچھ بھی کہو، کچھ نہ کچھ چکر ضرور ہے۔۔۔ یہ خود کشی نہیں ہو سکتی۔
اس کا موازنہ آپ پیگاسس پراجیکٹ کی کوریج سے کریں۔ الزام یہ ہے کہ ملک کی درجنوں سرکردہ (اور کئی بالکل عام) شخصیات کی جاسوسی کرنے کے لیے پیگاسس نام کا اسرائیلی سافٹ ویئر استعمال کرکے ان کے فون ہیک کیے گئے۔ انڈیا کی حکومت اس الزام سے انکار کرتی ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر ملکی ایجنسی ملوث ہو یا کوئی ہندوستانی نان سٹیٹ ایکٹر۔

انڈین میڈیا نے سشانت سنگھ کی خودکشی کو قتل بنانے کی کوشش کی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

جاسوسی جس نے بھی کی، یہ سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ یہ کتنی بڑی خبر ہے لیکن ہفتہ دس دن گزرنے کے بعد ہی اس کی کوریج آپ کو ڈھونڈنے سے ہی ملے گی۔ دنیا میں اس کی باز گشت روز سنائی دے رہی ہے، فرانس اسرائیل سے جواب مانگ رہا ہے، اسرائیل سمیت کئی ملکوں نے انکوائری کا اعلان کیا ہے لیکن انڈیا میں ایک طرح سے اس کا ذکر بند ہو گیا ہے۔ اب کوئی ٹی وی چینل تفتیشی صحافت نہیں کر رہا، کہیں کوئی نیا انکشاف نہیں ہے، کسی سے کوئی جوابدہی نہیں ہے۔
کوئی یہ نہیں پوچھ رہا کہ ان لوگوں کی فہرست کس نے تیار کی تھی جن کی ممکنہ طور پر جاسوسی کی جاسکتی تھی۔ ہاں یہ کئی چینلوں پر ہم نے سنا کہ فہرست میں نام ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ واقعی جاسوسی کی گئی تھی، یہ بات تو صرف فون کے فارینسک معائنے سے ہی ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ بھی کوئی نہیں پوچھ رہا ہے کہ اگر حکومت نے یہ سافٹ ویئر نہیں خریدا تو پھر کس نے خریدا اور کیسے، جب اسرائیلی کمپنی بار بار کہہ رہی ہے کہ وہ حکومتوں کو ہی یہ سافٹ ویئر بیچتی ہے۔
اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ نیوز ایجنڈا طے کرنے کی طاقت تو آپ کے ہاتھ میں ہے لیکن آپ اس کا استعمال نہیں کرتے۔ اگر آپ کو لگے کہ آپ کا پسندیدہ چینل آپ کی خبروں کی ضرورت پوری نہیں کر رہا تو ہاتھ بڑھائیے، ریموٹ اٹھائیے اور چینل بدل دیجیے۔

انڈین ذرائع ابلاغ پر نظر رکھنے والوں کے مطابق سشانت سنگھ کی موت کو میڈیا نے بہت زیادہ کوریج دی۔ (فوٹو: سکرین گریب)

انڈیا میں بہت سے لوگوں نے ایسا کیا ہے۔ انہوں نے رات نو بجے کی ڈبیٹ دیکھنا بند کر دیا ہے، ہم بھی ان میں شامل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ٹی وی چینل پر گھوم پھر کر چار پانچ لوگ ہی نظر آتے ہیں، وہ ایک دوسرے پر چیختے چلاتے ہیں اور آدھے گھنٹے کی تفریح کے بعد اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ سننے والوں کا صرف بلڈ پریشر بڑھتا ہے لیکن سمجھ کچھ نہیں آتا۔
اب کافی دنوں سے دو تین چینلوں نے اپنے سلوگن کے طور پر کہنا شروع کیا ہے کہ ہم چیخنے چلانے میں یقین نہیں رکھتے، ہم ایک مہذب انداز میں خِبروں کا ہر پہلو آپ تک پہچنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
لیکن ہم تک خبریں پہنچانے کا اس کے علاوہ دوسرا طریقہ کیا ہے؟
یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ آپ نیوز چینل باخبر رہنے کے لیے دیکھتے ہیں یا تفریح کے لیے۔ اگر خبروں اور تجزیوں کے لیے، تو آپ کی دلچسپی اس بات میں ہونی چاہیے کہ پیگاسس سے متعلق انکشافات کا ملک کی سیاست پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟ اگر مستقل یہ خوف ہو کہ کوئی آپ کی باتیں سن رہا ہے تو آپ کھل کر کسی سے کیسے بات کر سکتے ہیں؟

دو تین ٹی وی چینلز نے اپنے سلوگن کے طور پر کہنا شروع کیا ہے کہ ہم چیخنے چلانے میں یقین نہیں رکھتے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ پرائویسی کا بھی سوال ہے اور ڈیٹا کے تحفظ کا بھی۔ اس کا براہ راست اثر ہم سب کی زندگیوں پر پڑتا ہے۔ لیکن چائے خانوں میں اور چوپالوں پر اس بارے میں آپ کو کوئی بات کرتے ہوئے نہیں ملے گا۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ جاسوسی کوئی نئی بات نہیں ہے، ہمیشہ سے ہوئی ہے اور ہوتی رہے گی۔ اور ہم نے ایسا کیا کیا ہے کہ کوئی سن لے گا تو مسئلہ ہوگا۔
لیکن اگر یہ ہی خبر سشانت سنگھ راجپوت کی موت کی خبر کی طرح چوبیسوں گھنٹے ٹی وی چینلوں پر چل رہی ہوتی تو ہمیں لگتا کہ یہ تو بہت غلط بات ہے، آج بھلے ہی ہمارا نام اس فہرست میں شامل نہ ہو لیکن کل تو ہو سکتا ہے، اس کی روک تھام کے لیے تدابیر کی جانی چاہئیں۔
آج کل کے ڈیجیٹل دور میں ہماری زندگی چاہے کتنی بھی کھلی کتاب ہو لیکن پھر بھی کچھ باتیں ہمیشہ ایسی ہوتی ہیں جو صرف ان کانوں تک محدود رہنی چاہئیں جن میں وہ کہی گئی ہوں۔ وہ چاہے پیار محبت کی باتیں ہوں، کاروبار کی یا پھر سیاست کی۔
آپ ذرا اس بارے میں سوچیے اتنے میں ہم ریموٹ ڈھونڈتے ہیں۔

شیئر: