Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا قتل کیس میں گرفتار ملزم اخباری اشتہار دے سکتا ہے؟

’ڈان‘ اخبار میں نور مقدم قتل کیس کے ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر اور ان کی اہلیہ کی جانب سے یہ اشتہار شائع کروایا گیا ہے۔(فائل فوٹو)
اسلام آباد میں سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم کے قتل بعد سے یہ کیس سماجی حلقوں میں بڑے پیمانے پر زیربحث ہے۔
20جولائی کو نور مقدم کے قتل کے الزام میں ایک کاروباری شخصیت ذاکر جعفر کے بیٹے ظاہر جعفر کو اسلام آباد پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔ ملزم ظاہر جعفر اس وقت پولیس کی حراست میں ہے۔
اس مقدمے کی تفتیش آگے بڑھتے ہی 25 جولائی کو ملزم کے والد ذاکر جعفر، والدہ عصمت اور گھر کے ملازمین کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔
نور مقدم کے قتل پر سامنے آنے والا ردعمل ابھی کم نہیں ہوا تھا کہ جمعرات کو پاکستان کے معروف انگریزی اخبار ’ڈان‘  اور بزنس ریکارڈر میں ایک اشتہار شائع ہوا۔ اس اشتہار کو لے کر سوشل میڈیا پر نئی بحث شروع ہو گئی ہے اور صارفین مختلف طرح کے سوال اٹھا رہے ہیں۔
اشتہار میں ہے کیا؟
اخبار میں نور مقدم قتل کیس کے ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر اور ان کی اہلیہ عصمت کی جانب سے یہ اشتہار شائع کروایا گیا ہے۔
خیال رہے کہ ذاکر جعفر اور ان کی اہلیہ کی جانب سے یہ اشتہار ایسے وقت میں جاری ہوا ہے کہ جب وہ کیس کی تفتیش کے لیے پولیس کی حراست میں ہیں۔

اشتہار شائع ہونے کے بعد ٹوئٹر پر اخبار کے تراشے لگا کر صارفین اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ (فوٹو،سکرین شاٹ)

اشتہار کے الفاظ کچھ یوں ہیں:
’’ ہم نور مقدم کے ظالمانہ قتل پر سخت غم زدہ ہیں۔ نور مقدم کے خاندان اور ان کے پیاروں کی تسلی کے لیے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ بطور والدین ہم اس صدمے کا تصور بھی نہیں کر سکتے جس سے نور مقدم کا خاندان گزر رہا ہے۔ ہم مکمل طور پر نور کے خاندان کے ساتھ کھڑے ہیں اور یہ یقین دلاتے ہیں کہ قانون کو اپنا فطری راستہ اختیار کرنا چاہیے اور انصاف ہونا چاہیے۔ ہم دعاگو ہیں کہ خدا مقدم فیملی کو اس ہولناک صدمے اور ان کی پیاری بیٹی کے خلاف ہوئے مکروہ جرم سے نمٹنے کی طاقت اور حوصلہ دے ۔‘‘
 یہ اشتہار شائع ہونے کے بعد ٹوئٹر پر اخبار کے تراشے لگا کر صارفین اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ صحافی عالیہ چغتائی نے اپنی ٹوئٹ میں اشتہار کو ’فیس سیونگ اور پی آر ایکسر سائز‘ لکھا ہے۔

طوبیٰ نامی ٹوئٹر صارف نے ماریہ راشد کی ٹویٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’کیا اس اشتہار کا مطلب یہ ہے کہ وہ واقعی اپنے بیٹے کی مذمت کر رہے ہیں؟ ایسا نہیں ہے کیونکہ اس اشتہار میں کہیں بھی  ایسا نہیں کہا گیا۔ میں توقع رکھتی ہوں کہ وہ سچ مچ میں نور کے والدین کے ساتھ اور قاتل کے خلاف کھڑے ہوں گے۔‘

جاوید اقبال نے لکھا کہ ’ظاہر جعفر کے والدین نے ’ڈان‘ میں ایک تعزیت نامہ جاری کیا ہے لیکن وہ اپنے بیٹے کا نام لکھنا بھول گئے ہیں۔ غمگین قاتل اور جرم کے حمایتی‘

اخبار میں یہ اشتہار شائع کرنا کیسا ہے؟
سوشل میڈیا پر کچھ صارفین سوال اٹھا رہے کہ کوئی ملزم پولیس کی حراست میں ہوتے ہوئے اخبار میں اپنے نام سے اشتہار جاری کر سکتا ہے یا نہیں۔ بعض دوسرے صارفین نے یہ اشتہار شائع کرنے پر اخبار پر ’جرم کی اعانت‘ کا الزام بھی لگایا ہے۔
اردو نیوز نے میڈیا قوانین اور صحافتی اخلاقیات پر گہری نگاہ رکھنے والے صحافی و تجزیہ کار عدنان رحمت سے اس بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ’کچھ چیزوں کا تعلق اخلاقیات سے ہے اور کچھ چیزوں کا تعلق فرد کے بنیادی حقوق سے ہے۔ کسی شخص پر جتنا بھی سنگین الزام ہو اسے بولنے کا حق تو حاصل ہے۔ اگر یہ قانونی طور پر منع نہیں تو وہ اخباری اشتہار یا کسی بھی صورت میں اپنی بات کر سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس واقعے کے بعد لوگ ان(ملزم کے خاندان) سے نفرت کر رہے ہیں اور کوئی بھی ان کی بات سننا نہیں چاہتا، اس معاملے میں میرے خیال میں ملزم کے والدین اپنی پوزیشن واضح کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے بظاہر اس میں قانون کی کوئی خلاف ورزی نظر نہیں آتی۔ ہاں اخلاقیات کے نقطہ نظر سے اس پر بحث کی گنجائش موجود ہے۔‘

شیئر: