’ملزم کے والدین بروقت اطلاع دیتے تو نور مقدم کی جان بچ سکتی تھی‘
’ملزم کے والدین بروقت اطلاع دیتے تو نور مقدم کی جان بچ سکتی تھی‘
بدھ 28 جولائی 2021 17:53
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
ملزم ظاہر جعفر کے والدین کو بھی پولیس نے گرفتار کر رکھا ہے (فوٹو: سکرین گریب)
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کے قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر اور ان کی اہلیہ عصمت آدم جی کا نام پروویژنل نیشنل آئیڈینٹی فیکیشن لسٹ (پی این آئی ایل) میں شامل کرنے کی سفارش کردی ہے۔
واضح رہے کہ پی این آئی ایل میں نام شامل کرکے وزارت داخلہ کسی بھی شخص کو ایک ماہ تک بیرون ملک سفر کرنے سے روک سکتی ہے۔
قائمہ کمیٹی کے رکن مشاہد حسین سید نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ ’ملزم کے والدین کی ضمانت کے بعد بیرون ملک فرار ہونے کے خدشے کے پیش نظر وزارت انسانی حقوق کو سفارش کی گئی ہے کہ فوری طور پر ان کا نام پی این آئی ایل میں شامل کیا جائے۔‘
بدھ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین ولید اقبال کی زیر صدارت ہوا جس میں اسلام آباد پولیس کی جانب سے کمیٹی کو بریفنگ دی گئی۔
اجلاس کے دوران کمیٹی ارکان کی جانب سے ملزم کے والدین کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی تاہم وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ ’ای سی ایل میں نام شامل کرنے کے طریقہ کار میں وقت لگ سکتا ہے کیونکہ تحقیقاتی ایجنسی وفاقی کابینہ کو سمری بھیجے گی۔‘
’کابینہ سے سمری منظور ہونے کے بعد نام ای سی ایل میں شامل کیا جا سکتا ہے، اس لیے بیرون ملک سفر کرنے سے روکنے کے لیے ان کا نام فوری طور پر پی این آئی ایل میں شامل کرنے کی سفارش کر دی جائے گی۔‘
اگر کسی شخص کے بیرون ملک فرار کا خدشہ ہو یا اس کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے مرحلے میں ہو تو پروویژنل نیشنل آئیڈینٹی فیکیشن لسٹ (پی این آئی ایل) میں 30 دن کے لیے اس کا نام ڈالا جاتا ہے۔
پولیس نے واقعے سے متعلق کمیٹی کو بریفنگ میں کیا بتایا؟
قائمہ کمیٹی کو انسپکٹر جنرل اسلام آباد پولیس کی جانب سے سفارش کی گئی کہ بریفنگ کو ان کیمرہ رکھا جائے تاہم ابتدائی بریفنگ صحافیوں کی موجودگی میں ہی دی گئی۔
ایس ایس پی انوسٹی گیشن عطا الرحمان نے کمیٹی کو بتایا کہ '20 جولائی کو رات آٹھ بجے ملزم گرفتار کرلیا گیا تھا اور جائے وقوعہ سے ہی لاش برآمد ہوئی۔'
انہوں نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش سے ملزم ظاہر جعفر اور ان کے والدین کے درمیان وقوعہ کے وقت موبائل پر رابطہ ہونے کی تصدیق ہوئی ہے جس کی بنیاد پر والدین کو گرفتار کیا گیا تاہم ان کے درمیان کیا گفتگو ہوئی اس بارے ابھی تفتیش کی جا رہی ہے۔'
ایس ایس پی انوسٹی گیشن نے دوران بریفنگ بتایا کہ ’پولیس سے قبل تھیراپی ورکرز جائے وقوعہ پر پہنچے تھے اور ملزم ظاہر جعفر نے تھیراپی سینٹر کے ایک اہلکار کو چاقو سے شدید زخمی بھی کیا جس کے باعث اہلکار کی سرجری ہوئی ہے اور ابھی تک اس کا بیان ریکارڈ نہیں ہوا۔'
تھیراپی سینٹر کے اہلکاروں کو اطلاع کس نے دی؟
وفاقی وزیر انسانی حقوق شیری مزاری نے کمیٹی کو بتایا کہ ’ان کی وزارت مسلسل تفتیشی ٹیم کے ساتھ رابطے میں ہے۔ ملزم کی والدہ کو گھریلو ملازم نے واقعے کا بتایا، اور والدہ نے تھیراپی سینٹر کال کر کے اطلاع دی جہاں سے پانچ اہلکار ملزم کے گھر پہنچے اور تھیراپی ورکس والوں نے پولیس کو اطلاع دی۔‘
اس دوران سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے اعتراض اٹھایا کہ ’حساس نوعیت کی معلومات منظر عام پر آرہی ہیں جس سے تفتیش متاثر ہو سکتی ہے اس لیے بہتر ہے کمیٹی کی بریفنگ کو ان کیمرہ ہی کرلیا جائے۔‘
وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیری مزاری نے کہا کہ ’میں متاثرہ خاندان سے ملاقات کر چکی ہوں اور وہ اس کیس کی میڈیا کوریج سے خاندان کی پرائیویسی متاثر ہونے کا شکوہ کر رہے ہیں جس کے بعد کمیٹی نے پولیس سے ان کیمرہ بریفنگ لی۔
’پولیس کو برقت اطلاع ملتی تو بچی کی جان بچ سکتی تھی‘
بریفنگ کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کمیٹی کے رکن سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ’ملزم کے والدین کو گھر کے ملازم نے نور مقدم پر تشدد کی اطلاع اس وقت دی تھی جب اس نے مکان کے فرسٹ فلور سے چھلانگ لگائی، والدین نے بجائے پولیس کو اطلاع دینے کے تھیراپی سینٹر کو کال کی۔‘
’اگر پولیس کو بروقت اطلاع دی جاتی تو شاید بچی کی زندگی بچائی جا سکتی تھی، والدین نے پولیس کو اطلاع نہ دے کر غفلت برتی ہے۔‘
مشاہد حسین کے مطابق ‘بریفنگ میں ملزم ظاہر جعفر کی ذہنی صحت خراب ہونے سے متعلق کوئی بات نہیں بتائی گئی اور جو بریفنگ دی گئی ہے اس کے مطابق ملزم ہوش و حواس اور دماغی طور پر صحت مند انسان ہے۔
’نور مقدم کیس میں دہشت گردی کی دفعات شامل نہیں کی جاسکتیں‘
مشاہد حسین سید نے بتایا کہ ’کمیٹی ارکان کی جانب سے خواہش کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس کیس میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی جائیں تاہم پولیس کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اس کیس میں دہشت گردی کے دفعات شامل نہیں کی جاسکتیں۔‘
میڈیا غیر تصدیق شدہ خبروں کی اشاعت سے گریز کرے: پولیس
اسلام آباد پولیس کے ترجمان نے بدھ کو جاری کیے گئے ایک بیان میں میڈیا سے اپیل کی ہے کہ ’نور مقدم قتل کیس میں غیر مصدقہ خبروں کو نشر اور شائع کرنے سے گریز کیا جائے کیونکہ اس طرح تفتیش کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔‘
ترجمان کے مطابق ’کچھ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا ٹولز غیر مصدقہ خبریں پھیلا رہے ہیں جن میں سچائی نہیں۔‘
ترجمان کا کہنا تھا کہ ’کسی امریکی عہدیدار نے ملزم ظاہر ذاکر یا پولیس حکام سے ملاقات نہیں کی جبکہ ملزم کے والدین سے قانون کے مطابق برتاؤ کیا جا رہا ہے۔‘
بیان کے مطابق ’پولیس بہترین طریقے سے اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے اور تفتیش کا عمل مکمل ہونے کے بعد تمام تفصیلات میڈیا کے ساتھ شیئر کی جائیں گی۔‘