Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور سے چار کمسن بچیوں کے اغوا کا ماجرا کیا ہے؟

پولیس نے چاروں بچیوں کو ساہیوال سے بازیاب کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے چار کمسن بچیوں کے مبینہ اغوا کے چھ ملزمان کو پولیس نے عدالت میں پیش کر دیا ہے۔
عدالت نے چار مرد ملزموں کو جسمانی ریمانڈ کے ذریعے پولیس کے حوالے کر دیا اور دو خواتین ملزمان کو جیل بھیج دیا ہے۔  
اس حوالے سے ڈی آئی جی آپریشنز شارق جمال جمعرات کو لاہور میں پریس کانفرنس کرتے بتایا کہ ’سیف سٹی کیمروں کی مدد سے ان دو رکشوں کا پتہ لگایا گیا جن پر لڑکیوں کو لے جایا گیا۔‘
ان کے مطابق ’پولیس نے ساہیوال میں قحبہ خانے پر چھاپہ مارا اور پانچ لڑکیوں کو بازیاب کیا۔‘
ڈی آئی جی آپریشنز کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ ایک ملزم قاسم نے بچیوں میں سے ایک کو ایک لاکھ روپے میں بیچ دیا تھا۔‘
اس سوال پر کہ بچیوں کے ساتھ زیادتی یا تشدد ہوا؟ کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے بارے میں ابتدائی میڈیکل رپورٹ آنے پر ہی بتایا جا سکتا ہے۔‘
بچیوں کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو بھجوائے جانے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا بچیوں کی مرضی سے کیا گیا ہے کیونکہ وہ گھر نہیں جانا چاہتی تھیں۔‘
چھ روز قبل تھانہ ہنجروال کی حدود سے بچیوں کو اغوا کیا گیا اور عرفان نامی شخص کی جانب سے تھانے میں درخواست دی گئی تھی اور درج ہونے والے مقدمے کے مطابق ان (عرفان) کی دو کمسن بچیاں اور ان کی دو سہیلیاں گھر سے غائب ہیں جو اورنج لائن ٹرین میں سیر کے لیے نکلی تھیں۔  
پولیس نے بدھ چار اگست کو پنجاب کے ایک اور شہر ساہیوال سے چاروں بچیوں کو بازیاب کیا اور اس کے ساتھ چھ افراد کو بھی حراست میں لیا۔  
عدالت میں پیش کی جانے والی ابتدائی رپورٹ میں کئی انکشافات سامنے آئے ہیں۔
عدالت کو بتایا گیا کہ ’کاشف نامی ملزم لڑکیوں کو لاہور سے اغوا کرتا تھا، جبکہ اس کا ساہیوال میں ایک نیٹ ورک سے رابطہ تھا، جس کو شہزاد نامی ملزم چلاتا ہے۔‘
عدالت کو مزید بتایا گیا کہ ’نیٹ ورک کا ایک ملزم آصف اور اس کی بیوی ایک بیوٹی پارلر چلاتے ہیں۔ یہ لوگ چھوٹی عمر کی لڑکیوں ڈانس سکھاتے ہیں اور اس کے بعد ان کو پارٹیوں میں بھیجتے ہیں۔‘  
عدالت میں پیش کی جانے والی تحریری رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تمام ملزمان اور ان کی بیویاں عرصہ دراز سے اس کام میں ملوث ہیں۔  
تین اگست کو ساہیوال پولیس نے شہزاد کے گھر سے پانچ لڑکیوں کو بازیاب کیا اور اس کا مقدمہ بھی شہزاد پر درج ہوا لیکن ملزم نے ضمانت کروا لی جبکہ اگلے دن چار اگست لاہور سے اغوا کی جانے والی چاروں بچیوں کو ویرانے میں چھوڑ دیا گیا۔  
ترجمان لاہور پولیس کے مطابق ’رکشہ ڈرائیور قاسم نے بچیوں کو جب رکشے میں بٹھایا تو انہوں نے جوہر ٹاؤن میں ایک گھر جانے کے لیے کہا، جس پر اس نے بچیوں سے مزید سوالات کیے تو اسے علم ہوا کہ یہ بچیاں گھر سے بھاگی ہوئی ہیں۔ اس دوران اس نے انہیں نشہ آور چیز پلائی اور اپنے دوست سے رابطہ کیا جو کہ ساہیوال میں رہتا ہے۔ سیف سٹی سے رکشہ اور ایک کار کی شناخت ہوئی جس کے بعد ساہیوال پولیس کو الرٹ کیا گیا۔‘ 

مقدمے کے مطابق کی دو کمسن بچیاں اور ان کی دو سہیلیاں گھر سے غائب ہیں جو اورنج لائن ٹرین میں سیر کے لیے نکلی تھیں: فوٹو اے ایف پی

قبل ازیں ترجمان چائلڈ پروٹیکشن بیورو نے بتایا تھا کہ رات کو جب ساہیوال سے بچیاں بازیاب ہوئیں تو انہوں نے اپنے گھر واپس جانے سے انکار کر دیا۔
ان بچیوں کی عمریں 8،10،11 اور 14سال ہیں جس کے بعد ان کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو لایا گیا۔
ان کے مطابق ’ایک بچی نے بتایا کہ اس کے والد نشہ کرتے ہیں، دوسری نے بتایا ان کی سوتیلی ماں ان پر تشدد کرتی ہے۔ اب پولیس ان بچیوں کو عدالت لے کر گئی ہے۔ اگر عدالت میں بھی ان کی سٹیٹمنٹ یہی رہتی ہے تو اس کے بعد ان کو چائلڈ پروٹیکشن کے حوالے کردیا جائے گا اور ہم ان کی دیکھ بھال کریں گے۔‘  

شیئر: