کورونا وائرس کے باعث انڈیا میں بھی بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی۔ (فوٹو:اے ایف پی)
آپ کو یاد ہو کہ نہ یاد ہو لیکن ایک زمانہ تھا کہ بچے سکول جایا کرتے تھے، کچھ شرارت کے لیے، کچھ تفریح کے لیے اور کچھ یار دوستوں کے ساتھ موج مستی کے لیے، ساتھ میں تھوڑی بہت پڑھائی بھی ہو جاتی تو بس سونے پر سہاگہ۔
وہ روز صبح نہا دھو کر تیار ہونا، یونیفارم پہن کر گھر سے نکل جانا، کبھی سکول پہنچنا اور کبھی بس یہاں وہاں بھٹک کر گھر لوٹ آنا، زیادہ کچھ اگر سیکھ بھی نہیں رہے تھے تب بھی زندگی میں ایک ڈسپلن تو تھا۔
لیکن تقریباً گذشتہ ڈیڑھ برس سے یہ شیڈول درہم برہم ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے سکول اب تک بند ہیں، بچے گھروں میں نہیں تو اپنے محلوں میں محصور ہیں، آن لائن کلاسز چل تو رہی ہیں لیکن بس ان کے لیے جن کے ماں باپ کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے۔
آن لائن کلاسز کے لیے ہر بچے کو ایک لیپ ٹاپ چاہیے، اگر آپ کو لگتا ہے کہ موبائل فون کی چھوٹی سی سکرین پر آپ پانچ چھ گھنٹے کلاسز اٹینڈ کر سکتے ہیں تو ایک مرتبہ ٹرائی کر کے ضرور دیکھیے گا، دوپہر ہوتے ہوتے یہ یاد کرنا بھی مشکل ہی لگے گا کہ صبح فون کے سامنے کیوں بیٹھے تھے۔
تو اس بات پر تو کوئی بحث نہیں ہے کہ آن لائن کلاسز سے پڑھائی کا نقصان ہو رہا ہے اور جسمانی اور ذہنی نشوونما کا بھی۔
شاپنگ مال کھلے ہوئے ہیں، بازاروں میں بھیڑ اتنی ہے کہ جیسے چاند رات ہو، ہوائی جہاز فل چل رہے ہیں، ٹرینوں میں تو ویسے ہی پیر رکھنے کی جگہ نہیں ملتی، سڑکوں پر ٹریفک کورونا وائرس سے پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہے، پکچر ہال کھل گئے ہیں، ورزش کے لیے جم اور سوئمنگ پول کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے، بس سکول بند ہیں۔
کیوں، یہ بات اپنی سمجھ سے باہر ہے۔ صبح سے شام تک بچے یہاں وہاں کھیلتے پھرتے ہیں، امیر بھی اور غریب بھی، ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کے کھیل الگ ہیں، لیکن دونوں کو ہی سکول آنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے حکام کو ڈر ہو کہ کہیں بچے پڑھ لکھ نہ جائیں۔
انڈیا میں زیادہ تر ریاستی حکومتوں کا جواب یہ ہی ہوگا کہ بچوں کی صحت کے ساتھ کوئی خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ لیکن اس طرح کے فیصلے ڈیٹا کی بنیاد پر کیے جانے چاہییں۔ اور سائنس اب ہمیں یہ بتا رہی ہے کہ بچے کورونا وائرس سے محفوظ تو نہیں ہیں لیکن سنگین بیماری کے خطرے کے لحاظ سے فہرست میں بہت نیچے آتے ہیں۔
تو ہونا یہ چاہیے کہ پہلے ماں باپ کو یہ آپشن دے دیا جائے کہ اگر آپ بچوں کو سکول بھیجنا چاہتے ہیں تو بھیج سکتے ہیں۔ کیسز کی تعداد بڑھے تو حالات کے مطابق فیصلہ کریں لیکن اس انتظار میں بیٹھے رہنا زیادہ سمجھداری کی بات نہیں ہے کہ سکول کالج اس وقت ہی کھولیں گے جب کورونا پوری طرح ختم ہو جائے گا۔ کیونکہ ایسا لگتا نہیں ہے کہ یہ عنقریب ہونے والا ہے۔
اور ہاں بچوں کی پڑھائی اور کھیل کود کی بات ہو اور اولمپکس کا ذکر نہ ہو، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ پڑھائی اور سپورٹس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
انڈیا نے اولمپکس میں سات میڈل حاصل کیے اور ظاہر ہے کہ عوام کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں ہے حالانکہ 10 سال پہلے لندن اولمپکس میں انڈیا نے چھ میڈل جیتے تھے۔ اس بار فرق یہ ہے کہ کسی ہندوستانی نے پہلی مرتبہ کسی ٹریک اینڈ فیلڈ ایونٹ میں گولڈ میڈل جیتا ہے۔
اس لیے جشن تو بنتا ہے۔ مردوں اور عورتوں کی ہاکی ٹیمیں سیمی فائنل میں پہنچیں، یہ بھی بڑی بات ہے، اور کچھ میڈل بس بال بال رہ گئے، جیسے گولف میں آدیتی اشوک جو چوتھے نمبر پر رہیں۔
انڈیا کی مجموعی کارکردگی دیکھ کر آپ خوش بھی ہو سکتے ہیں یا پھر چین کی میڈل ٹیلی دیکھ کر یہ سوچ سکتے ہیں کہ چین ایسا کیا کر رہا ہے جو ہم نہیں کر سکتے؟ اور دنیا کے اتنے چھوٹے چھوٹے ملک، تیز چلا جائے تو جنہیں پیدل پار کرنے میں دس پندرہ منٹ سے زیادہ نہ لگیں، ہم سے زیادہ میڈل کیسے جیت لیتے ہیں؟
جواب اتنا مشکل نہیں ہے جتنا زیادہ تر لوگ سوچتے ہیں۔ آپ اپنے کھلاڑیوں سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ اولمپکس میں جا ہی رہے ہو تو دو چار میڈل لیتے آنا۔
پہلے اس کے لیے انفراسٹرکچر تیار کرنے کی ضرورت ہے جہاں باصلاحیت بچے جائیں اور تربیت حاصل کر سکیں۔ کشتی، باکسنگ اور بیڈمنٹن میں یہ نظر آنے لگا ہے۔ شوٹنگ کا ذکر اس لیے مناسب نہیں کہ یہ بہت مہنگا اور ایلیٹ سپورٹ ہے، جن کے پاس وسائل ہیں وہ ہی شوٹنگ رینج کا رخ کرتے ہیں۔
کرکٹ کے آئی پی ایل سے نوجوان کرکٹرز کے لیے بے پناہ راستے کھلے ہیں۔ اب ماں باپ بچوں کو یہ کہہ کر نہیں روکتے کہ قومی یا ریاستی ٹیم میں نہیں آئے تو کیا کرو گے کیونکہ ٹیم میں دس پندرہ کھلاڑیوں کی ہی جگہ ہوتی ہے۔
شاید اسی طرح انڈیا کو ایک ایتھلیٹکس لیگ کی بھی ضرورت ہے جہاں پرائیویٹ کمپنیاں آگے آئیں اور اپنی ٹیمیں بنائیں۔ جب پیسہ بھی ہو اور ٹی وی پر ایکسپوژر بھی تو بچوں میں ایک شوق جاگتا ہے۔
فی الحال انفراسٹرکچر صرف بڑے شہروں تک محدود ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو بچوں کو سپورٹس میں کیریئر بنانے کا موقع دینے کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر کسی بڑے شہر میں منتقل ہو سکتے ہیں؟ اس لیے نیرج چوپڑا جیسے نوجوان دس بیس پچاس سال میں ہی نظر آتے ہیں، وہ بھی ان ریاستوں میں جہاں روایتی طور پر سپورٹس کو فروغ دیا جاتا ہے۔
مورل آف دی سٹوری یہ ہے کہ بچوں کو پڑھنے اور کھیلنے دونوں کا موقع دیجیے۔ پھر جن بچوں میں ہنر نظر آئے انہیں وسائل اور تربیت کی کمی کی وجہ سے اپنا سفر بیچ میں نہ چھوڑنا پڑے، بس انتا انتظام کر دیجیے۔
ایسا نہیں کہ یہ سب بچے میڈل لے کر لوٹیں گے۔ لیکن وہ کم سے کم بھاگنے سے پہلے تو ہار نہیں مانیں گے۔ اور اگر آپ کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ وسائل کہاں سے آئیں گے تو بس سردار پٹیل کا وہ مجسمہ دیکھ لیجیے گا جس پر ہزاروں کروڑ روپے خرچ کیے گئے تھے۔
نیت ہو تو انتظام ہو ہی جاتا ہے۔ سردار پٹیل کا دیو قامت مجسمہ بنانے کے بجائے ان کے نام سے سپورٹس کی ایک سکیم منسوب کی جاتی تو ہزاروں نوجوانوں کی امنگوں کو پنکھ ملتے۔ انڈیا کے سات میڈل جیتنے والوں میں سے چھ کے کوچ غیرملکی ہیں اس لیے باہر سے کوچ لانے میں کنجوسی مت کریے گا۔
نیرج چوپڑا کی کامیابی کا جشن منائیے لیکن انہیں دیکھ کر ترغیب حاصل کرنے والے بچوں پر بھی نگاہ رکھیے تاکہ اگلے اولمپکس میں نیا نوجوان ٹیلنٹ سامنے آئے۔
اور ہاں، سکول کالج کھولنا مت بھول جائیے گا۔ شروعات وہیں سے ہوتی ہے۔