Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دلی: جھوٹ بولنا منع ہے

مئی میں آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ہم سمجھتے رہے کہ بی جے پی اور ان سے نظریاتی مماثلت رکھنے والے پیار کے دشمن ہیں اس لیے محبت کرنے والوں کے درمیان دیواریں کھڑی کرتے رہتے ہیں تاکہ کسی کو یہ معلوم نہ ہو کہ انہیں محبت پسند نہیں، اس لیے جو کرتے ہیں نام نہاد لو جہاد کی آڑ میں کرتے ہیں۔
لیکن بڑے بوڑھے ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ جلد بازی میں کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے۔ تھوڑا وقت اور تھوڑا موقع دیا جائے تب ہی اصل تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے اور اس کے بعد آپ اپنی عقل استعمال کریں اور جس کے بارے میں جو رائے مناسب سمجھیں، قائم کر لیں۔
گذشتہ ایک دو ہفتوں میں کئی ایسی باتیں ہوئیں جنہیں دیکھ کر ہم نے اپنی رائے کچھ تو بدل لی ہے اور کچھ بدلنے کی تیاری میں ہیں۔
شروع شمال مشرقی ریاست آسام سے کرتے ہیں جس کی سرحد بنگلہ دیش سے ملتی ہے۔ آسام کی تقریباً ایک تہائی آبادی مسلمان ہے۔ اور ریاست کے نئے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما بظاہر ان کی غربت اور خستہ حالی کی وجہ سے بہت فکرمند ہیں۔
اس لیے کافی پابندی سے انہیں خاندانی منصوبہ بندی اختیار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ پہلے وہ مقامی آسامی مسلمانوں پر فوکس کر رہے ہیں، اگلا نمبر ان مسلمانوں کا ہے جو خود یا جن کے آباؤاجداد بنگلہ دیش یا سابقہ مشرقی بنگال سے آئے تھے۔
لوگ کہہ رہے ہیں کہ بچے تو سب پیدا کرتے ہیں تو یہ مشورہ صرف ایک ہی حلقے کو دینے سے کیا دوسرے لوگوں میں محرومی کا احساس پیدا نہیں ہوگا؟ لوگ کیا یہ نہیں کہیں گے کہ ووٹ تو ہم نے دیا تھا اور خدمت ان کی کر رہے ہیں جن سے یہ ووٹ مانگنے تک نہیں گئے۔ ان کی محبت کا انداز بھی نرالا ہے۔
بھائی آپ سب کو سمجھائیے کہ خاندانی منصوبہ بندی میں خود ان کا فائدہ ہے، کنبہ چھوٹا ہوگا تو بچوں کی پرورش اچھے سے کی جا سکتی ہے لیکن اس کی آسان ترکیبیں ہیں۔ جیسے جیسے تعلیم اور بیداری بڑھتی ہے، آبادی میں اضافے کی شرح خود بہ خود کم ہونے لگتی ہے۔
اور ہاں آبادی پر کنٹرول کرنا اچھی بات ہے لیکن ذرا احتیاط سے کام لیجیے گا، دنیا میں چین اور جاپان جیسے بہت سے ایسے ملک ہیں جن کی آبادی میں بوڑھوں کا تناسب بہت زیادہ ہو گیا ہے اس لیے وہ نوجوانوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی تلقین کر رہے ہیں۔

آسام کی تقریباً ایک تہائی آبادی مسلمان ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ایسا نہ ہو کہ آپ جذبات میں حد سے گزر جائیں، بے لوث خدمت کے جذبے میں کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے۔
ہیمنت بسوا سرما دراصل پرانے کانگریسی ہیں جو پارٹی سے ناراض ہوکر بی جے پی میں چلے گئے تھے۔ وہ 15 سال کانگریس کی حکومت میں صحت اور تعلیم کے وزیر رہے، اس لیے ریاست میں کانگریس کے رہنما ان سے پوچھ رہے ہیں کہ یہ سارے انقلابی خیال انہیں پہلے کیوں نہیں آئے؟ اس وقت کیا کر رہے تھے؟
بہرحال، ہم اس نتقید سے اتفاق نہیں کرتے۔ اچھا آئیڈیا آنے کا کوئی وقت طے نہیں ہوتا، جب آجائے تو بنا وقت ضائع کیے اس پر عمل کرنا چاہیے۔
جیسے لو جہاد کی روک تھام کے لیے قانون بنانے کا آئیڈیا۔ آپ کہیں گے کہ یہ تو کوئی نیا آئیڈیا نہیں ہے، اتر پردیش جیسی کئی ریاستیں پہلے ہی ایسے قانون بنا چکی ہیں۔ لیکن جناب، وزیراعلیٰ اڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں، وہ خود مشعل راہ ہیں اور ان کے آئیڈیاز بھی۔
اس لیے انہوں نے لو جہاد کی تشریح ہی بدل دی ہے۔ پہلے لو جہاد کا مطلب یہ سمجھا جاتا تھا کہ مسلمان لڑکا ہندو لڑکی کو بہلا پھسلا کر اس سے شادی کر لے اور اسے اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرے اب وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ اگر ہندو لڑکا ہندو لڑکی سے جھوٹ بول کر شادی کرے تو یہ بھی لو جہاد ہے اور وہ اس کے خلاف جلدی ہی ایسا قانون وضع کریں گے جو ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے لیے برابر ہوگا۔

گذشتہ برس انڈیا میں لو جہاد قانون کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اف۔۔۔ اور جیسا ہم نے پہلے کہا، ہم سمجھتے رہے کہ ان لوگوں کو محبت سے مسئلہ ہے۔ بات صرف اتنی نکلی کہ انہیں کسی بھی قیمت پر جھوٹ برداشت نہیں ہے، بولنے والا چاہے مسلمان ہو یا ہندو۔
تو کم سے کم ان پر مذہب کی بنیاد پر تفریق کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ اگر آبادی کنٹرول کرنے کی ان کی کوششوں کے بارے میں پڑھ کر آپ نے جلد بازی میں کوئی رائے قائم کر لی ہو تو براہ کرم اسے بدل لیجیے۔ جلدبازی کے فیصلے کبھی اچھے نہیں ہوتے۔
یہ بات وزیراعلیٰ پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ اگر یہ قانون بن جاتا ہے تو قیامت ہوگی۔ محبت میں تو آپ اکثر بہت سی ایسی باتیں کہتے ہیں جو جھوٹ کے زمرے میں بھلے ہی نہ آتی ہوں لیکن سچ بھی نہیں ہوتیں۔ باقی، تھوڑا بہت تجربہ تو آپ کو بھی ہوگا ہی۔
اب کل کو اگر کوئی ہندو لڑکا اپنی مجبوبہ سے کہے کہ میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، مجھ سے شادی کر لو تو بس یہ سمجھ لیجیے کہ اس نے جیل جانے کی بنیادی تیار کر لی ہے۔ یا شادی سے پہلے کہے کہ میں تمہارے لیے چاند ستارے توڑ کر لاسکتا ہوں اور بعد میں مکر جائے۔ کچھ لوگ تو شاید یہاں تک کہیں گے کہ اگر صرف 100 فیصد سچائی سے کام لیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ بات شادی تک پہنچے ہی نا۔

آسام کی اسمبلی میں ہندو، سکھ اور جین مذہب کے اکثریت والے علاقوں میں گوشت کے فروخت کے حوالے سے بھی ایک بل پیش کیا گیا ہے۔ (فائل فوٹو)

خیر ہم تو صرف اتنا کہیں گے کہ قانون سازی ذرا سوچ سمجھ کر کیجیے گا، شادی سے پہلے اور شادی کے بعد بھی سچائی سے تھوڑی بہت کفایت کی ضرورت پڑ ہی جاتی ہے، یا پھر جیلوں کے گنجائش بڑھانے پر توجہ دیجیے، وہاں بڑی تعداد میں ہندو اور مسلمان پہنچیں گے اور سوچیں گے کہ ان کا اصل جرم کیا تھا؟ محبت کرنا یا محبت کرنے کے لیے جھوٹ بولنا؟
اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ کہنے کی باتیں ہیں ایسے قانون کون بناتا ہے تو آپ پھر اپنی رائے بدل لیجیے۔ آسام کی حکومت نے اسمبلی میں ایک اور بل پیش کیا ہے جس کے تحت ہندوؤں، سکھوں اور جینیوں کی آبادی والے علاقوں میں بڑے کا گوشت نہیں بیچا جاسکے گا اور نہ ہی کسی مندر کے پانچ کلومیٹر کے دائرے میں۔
کوئی بہت قسمت والا ہی ہوگا جس کی گوشت کی دکان سے کسی بھی سمت میں آپ پانچ کلومیٹر تک چلتے جائیں اور کوئی مندر نہ ملے۔
اور کوئی بہت ہی اصولوں والا ہوگا جس نےاپنی محبوبہ (اور بعد میں بیوی) سے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو۔ وہ چاہے ہندو ہو یا مسلمان۔

شیئر: