اگست میں پیدا ہونے والے دو جنرل جو افغان جنگ میں امریکی اتحادی بنے
اگست میں پیدا ہونے والے دو جنرل جو افغان جنگ میں امریکی اتحادی بنے
جمعہ 20 اگست 2021 5:41
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
دو بڑے فوجی آمروں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویزمشرف کا بھی اگست کے مہینے سے گہرا تعلق ہے (فوٹو اے ایف پی)
پاکستان کی تاریخ میں شاید اگست سے زیادہ کسی مہینے کی اہمیت نہیں۔ ناصرف پاکستان اسی ماہ کی چودہ تاریخ کو وجود میں آیا بلکہ ملکی تاریخ کے کئی اہم ترین واقعات اسی ماہ میں ہوئے۔
پاکستان کی تاریخ کے دو بڑے فوجی آمروں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویزمشرف کا بھی اگست کے مہینے سے گہرا تعلق ہے۔ ناصرف دونوں کی تاریخ پیدائش اسی ماہ کی ہے بلکہ دلچسپ طور پر دونوں کی اقتدار سے رخصتی بھی اگست ہی کے مہینے میں ہوئی۔
پاکستان کے آئین کے خالق ذوالفقارعلی بھٹو کو بزور طاقت ہٹا کر اقتدار سنبھالنے والے جنرل ضیا الحق 12 اگست 1924 کو پیدا ہوئے اور 17 اگست 1988 کو طیارہ حادثے میں جان گنوانے کے بعد ان کا اقتدار اختتام کو پہنچا۔
وزیراعظم نواز شریف کو ایک فوجی انقلاب میں ہٹا کر اقتدار میں آنے والے جنرل پرویز مشرف 11 اگست 1943 کو پیدا ہوئے اور 18اگست 2008 کو ان کے اقتدار کا سورج استعفے کی شکل میں غروب ہو گیا۔
اگرچہ جنرل ضیا الحق نے ملک میں اسلامی نظام لانے کی بات کی اور جنرل پرویز مشرف نے روشن خیال اعتدال پسندی کا نعرہ لگایا مگر دونوں میں کئی قدریں مشترک بھی تھیں جن میں ایک امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان کی جنگ میں حصہ لینا بھی تھا۔
دونوں آرمی چیف تھے اور مارشل لا کے نتیجے میں صدر بنے تھے۔ دونوں نے اقتدار کو قانونی تحفظ دینے کی خاطر متنازعہ ریفرنڈم کرائے۔ دونوں نے اپنی پسند کی مسلم لیگ قائم کی اور الیکشن کے ذریعے اسے اقتدار بھی دلوایا۔
جنرل ضیا اور جنرل مشرف میں کیا مشترک تھا کیا مختلف ؟
دونوں فوجی صدور میں کیا مختلف تھا کیا مشترک اس حوالے سے اردو نیوز نے دو ایسے صحافیوں سے گفتگو کی ہے جنہوں نے بطور صحافی دونوں ادوار قریب سے دیکھے تھے۔
ڈان اخبار کے سابق ریزیڈنٹ ایڈیٹر ضیا الدین کے مطابق ضیا الحق اور مشرف میں زیادہ فرق نہیں۔
’پاکستان کا فوجی خاص کر جنرل ایک خاص سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ گو بظاہر جنرل ضیا الحق اسلام کی بات کرتے تھے اور جنرل مشرف روشن خیالی کی مگر نہ ضیا اصل میں اسلام چاہتے تھے اور نہ مشرف روشن خیالی کے نظریے سے مخلص تھے بلکہ دونوں نے اسے اقتدار کی سیڑھی اور دوام کے لیے استعمال کیا‘۔
دونوں فوجی آمر امریکی اشاروں پر چلتے تھے: ضیا الدین
ضیا الدین کے مطابق ’جنرل ضیا الحق چونکہ ذوالفقار علی بھٹو کو ہٹا کر آئے تھے جنہیں پاکستان کے میڈیا اور سٹیبشلمنٹ نے بہت گناہ گار مشہور کر دیا تھا اس لیے انہوں نے خود کو مذہبی بنا کر پیش کیا مگر حقیقت میں وہ تو خود کلین شیو تھے اور ان کے اہل خانہ پردہ بھی نہیں کرتے تھے۔
’اسی طرح جو اسلامی بینکاری انہوں نے متعارف کروائی وہ عام بینکاری ہی تھی بس انگریزی اصطلاحات کا اردو یا عربی ترجمہ کر دیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ضیا الحق کے دور میں بہت خرابیاں پیدا ہوئیں انہوں نے قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنا دیا۔‘
اسی طرح ضیا الدین کے مطابق پرویز مشرف کی روشن خیالی بھی ڈھکوسلہ تھا کیونکہ جب ستمبر گیارہ کے حملوں کے بعد امریکی دباو پر مشرف نے طالبان کے خلاف کارروائی کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا تو جنگ احد کا حوالہ دیا اور مذہب کو استعمال بھی کیا۔
دونوں سابق صدور کے درمیان قدر مشترک کے حوالے سے سوال پر ضیا الدین کا کہنا تھا کہ ’ضیا الحق کو گیارہ سال ملے اور مشرف کو نو سال مگر دونوں ڈکٹیٹرز نے آئین کو پامال کیا غیر قانونی طور پر اقتدار پر قبضہ کیا۔ دونوں امریکی اشاروں پر چلے اور ملکی مفاد کو امریکہ کے ہاتھ میں گروی رکھ دیا ۔دونوں خود کو عقل کل سمجھتے تھے۔‘
جنرل ضیا الحق جنرل مشرف سے بہت بہتر تھے: مجیب الرحمن شامی
سینیئر صحافی اور روزنامہ پاکستان کے ایڈیٹر مجیب الرحمن شامی کے مطابق دونوں فوجی سربراہوں کا موازنہ نہیں بنتا کیونکہ دونوں کی شخصیات میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ جنرل ضیا الحق اسلام اور اسلامی وحدت کی بات کرتے تھے۔ انہوں نے سودیت یونین کے خلاف مزاحمت کی اور مجاہدین کو منظم کیا اور تاریخ کا رخ بدلا۔
انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف نے طالبان کی حکومت ختم کرنے میں عوامی جذبات کے برعکس امریکہ کا ساتھ دیا تھا جس کے نتیجے میں ساری قوم کو نقصان اٹھانا پڑا۔ معیشت کا نقصان ہوا۔
تاہم مجیب الرحمن شامی کے مطابق لاابالی طبعیت کے باجود جنرل مشرف میں کچھ شخصی خوبیاں موجود تھیں۔ مثلا وہ زہین تھے، متحرک تھے اور بات کہنے کی قدرت رکھتے تھے۔ دوسرا ان میں حوصلہ تھا کہ دوسرے کی بات سن سکیں اور بعض اوقات وہ دوسروں کی سن کر اپنی رائے تبدیل بھی کر دیا کرتے تھے جو کہ اچھی بات تھی۔
دونوں کی قدر مشترک یہ تھی کہ دونوں نے اپنے اقتدار کو قانونی حثییت دینے کے لیے متنازع ریفرنڈم کروایا جس کے بعد ضیا الحق پر بھی سوال اٹھے اور مشرف پر بھی۔ مشرف نے دو دفعہ آئین معطل کیا اور دوسری بار انہیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جو ان کے استعفے پر منتج ہوا۔
مجیب الرحمن شامی نے اپنی ذاتی ملاقاتوں کے حوالے سے بتایا کہ انہیں جنرل ضیا اور مشرف دونوں سے ملنے کا اتفاق ہوا جس میں انہوں نے جانا کہ دونوں اختلافی بات سن سکتے تھے اور ان کے سامنے کھل کر بات کی جا سکتی تھی۔