Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ضیاءالحق کی موت حادثہ یا سازش، برسوں بعد بھی معمہ

17 اگست 1988 کو جنرل ضیاءالحق کی موت طیارہ حادثے میں ہوئی۔ فوٹو: اے ایف پی
’میں جنرل ضیاء الحق کے ساتھ تھا اور انھیں جہاز تک چھوڑنے آیا۔ سب لوگ جہاز میں بیٹھ چکے تھے۔ جہاز میں داخل ہوتے ہوئے انہوں نے کہا:
’آپ بھی آ رہے ہیں، مگر آپ کا تو اپنا جہاز ہے (جو سامنے کھڑا تھا) 
’جی ہاں، میں اپنے جہاز سے آؤں گا، اللہ حافظ
’ان کا جہاز ٹیک آف کر گیا اور اس کے ساتھ میں بھی روانہ ہوا۔ ابھی کوئی دس منٹ ہوئے تھے کہ میرے پائلٹ کرنل معراج نے پریشانی کے عالم میں بتایا:
’سر اسلام آباد کنٹرول کا پاکستان ون سے رابطہ نہیں ہو رہا ہے۔ میں بھی کوشش کر رہا ہوں لیکن کوئی رسپانس نہیں ہے۔
’اللہ رحم کرے کیا ہو سکتا ہے۔
’ہم سب دعائیں پڑھنے لگے پائلٹ نے بتایا:
’وہ سامنے دھواں نظر آ رہا ہے۔ دوسرے ہی لمحے ہمارا جہاز اس کے قریب پہنچ چکا تھا۔ نیچے ایک ہیلی کاپٹر بھی اتر رہا تھا جو ملتان جا رہا تھا۔ ہمارا جہاز اوپر چکر لگاتا رہا۔ ہیلی کاپٹر کے پائلٹ سے رابطہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ سی ون تھرٹی کریش ہو گیا ہے۔ آگ لگی ہوئی ہے کوئی زندہ نظر نہیں آ رہا۔‘
17 اگست 1988 کو صدر پاکستان اور مسلح افواج کے سربراہ جنرل ضیاءالحق کی ناگہانی موت کی طرف روانگی سے قبل کی گفتگو کا احوال سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ کی کتاب ’اقتدار کی مجبوریاں‘ میں بیان کیا گیا ہے
اسی روز ضیاء الحق بہاولپور کے قریب ٹامیوالی فائرنگ رینج میں امریکی ساختہ ایم ون اے ون اور مقامی طور پر تیار کردہ الخالد ٹینک کی آزمائشی کارکردگی دیکھنے آئے تھے۔ بہاولپور ایئرپورٹ سے ان کے طیارے نے ساڑھے تین بجے پرواز بھری۔ ضیاء الحق کے ساتھ امریکی ساختہ سی ون تھرٹی ہرکولیس طیارے میں جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل اختر عبدالرحمان، چیف آف جنرل اسٹاف جنرل افضل، میجر جنرل محمد حسین اعوان کےعلاوہ پاکستان میں امریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور ڈیفنس اتاشی بریگیڈیئر جنرل ہربرٹ واسوم سمیت 29 افراد سوار تھے۔
سترہ اگست کی شام ملک میں غیر یقینی حالات تھے۔ صدر مملکت کے ساتھ ساتھ فوج کی اعلیٰ قیادت کی اچانک موت سے ملک کا کوئی آئینی سربراہ تھا نہ ہی بری فوج کا سپہ سالار۔
بہاولپور کے قریب بستی لال کمال میں طیارے کے ملبے سے اٹھنے والے سیاہ دھوئیں نے قومی افق پر سازشی نظریات، شکوک و شبہات اور اندیشوں کی سیاہی پھیلا دی۔ ساتھ ہی ضیاء الحق کے مجوزہ نئے نظام کی قسمت بھی تاریکی کے حوالے ہوگی۔

جنرل ضیاءالحق کے طیارے میں 29 افراد سوار تھے جب حادثے کا شکار ہوا۔ فوٹو وکی میڈیا کامنز

گیارہ برس تک پاکستان کی سیاسی اور دفاعی تقدیر کے مالک بنے رہنے والے ضیاءالحق کی جان لینے کی پہلے بھی کوششیں کی گئیں۔ انیس سو تراسی میں الذوالفقار کی طرف سے مبینہ طور پر راولپنڈی میں سپر سونک میزائل کے ذریعے ان  کے طیارے کو نشانہ بنانے کی سازش ناکام بنائے جانے کا انکشاف ہوا تھا۔ 
ان کے اپنے ادارے کے جونیئر افسران کے خلاف انیس سو اسی اور پھر 1984 میں حکومت کے خلاف سازش، ضیاء کے قتل اور حکومت کا تختہ الٹنے کی مبینہ سازش کے الزامات میں کارروائی کی گئی۔ اس کی تفصیل میں جانے سے قبل ضیاءالحق کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے ان کے ساتھیوں کے غیر اعلانیہ ’کلب‘ کا ذکر ہو جائے جو ان کی قوت اور اقتدار کا اصل مرکز تھا۔
ملک کے معروف سیاست دان اور دانشور مشاہد حسین سید اپنی کتاب Pakistan's Politics,The Zia Yeras میں ان ساتھیوں کے کلب جنہیں وہ اپنے ’رفقائے کار‘ کہتے تھے کا ذکر تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق ابتدا میں یہ کلب چھ  ممبران پر مشتمل تھا جنہوں نے مارشل لاء لگانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا ۔اس میں ضیاء الحق کے علاوہ جنرل فیض علی چشتی، جنرل غلام جیلانی، جنرل اقبال، جنرل سوار خان اور جنرل جہازیب ارباب شامل تھے۔
طویل القامت جسامت اور لمبی مونچھوں کے مالک  جنرل فیض علی چشتی کو شروع میں نئے نظام کا منصوبہ ساز سمجھا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ چشتی اور ضیاء کے تعلق کو مصر کے جنرل نجیب اور کرنل ناصر کے مماثل قرار دیا جاتا تھا۔ جنرل نجیب 1952 میں مصر میں مارشل لاء کا مرکزی کردار تھے۔ مگر بعد میں کرنل جمال عبد الناصر حقیقی حکمران کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔

جنرل ضیاءالحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا تو غلام اسحاق خان پہلے مشیر خزانہ تھے۔ فوٹو اے ایف پی

مشاہد حسین سید بیان کرتے ہیں کہ فروری انیس سو اسی میں فوج کے ایک ریٹائرڈ میجر جنرل تجمل حسین، جو انیس سو چھہتر میں ڈویژن کی کمانڈ کرچکے تھے کو ضیاء کے قتل کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ان کے دو رشتہ دار حاضر سروس جونیئر افیسرز کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر ان گرفتاریوں کے بعد جنرل فیض علی چشتی اور جنرل غلام حسین ریٹائرڈ کر دیئے گئے۔
پنجاب اور سرحد کے گورنرز غلام جیلانی اور فضل حق کے علاوہ اطلاعات کے سیکریٹری جنرل مجیب اور وزارت دفاع کے ذمہ دار جنرل رحیم ضیاء الحق کے رفقاء کے کلب میں شامل ہو گئے۔ وزیر خزانہ غلام اسحاق خان اور خارجہ امور کے وزیر صاحبزادہ یعقوب علی خان اس کلب کے سویلین ممبرز تھے جن پر ضیاء الحق بھروسہ کرتے تھے۔
ان کے خلاف دوسری سازش کا انکشاف جنوری 1984 میں ہوا۔ جب فوج کے کچھ جونیئر افسران کا ایک گروپ حکومت خلاف الزام میں دھر لیا گیا۔ ان کا تعلق اس دور میں لندن میں جلاوطن سیاسی رہنما غلام مصطفیٰ کھر سے بھی جوڑا گیا۔ اسی طرح اس سازش میں بھارتی روابط اور تعاون کا بھی چرچا ہوا۔ ماضی کی طرح اس بار ضیاءالحق کے رفقاء میں سے جنرل اقبال اور جنرل سوار کو ریٹائرڈ کرکے گھر بھیج دیا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے باعث ضیاء کے تحت الشعور میں ان کی ذات اور سیاسی نظام سے بیزاری کا خوف نہ نکل سکا۔ مشاہد حسین سید نے اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے شیکسپیئر کے ڈرامے کے کرداروں میکبتھ اور بین کو کی تمثیل بیان کرتے ہوئے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے کہ کیسے بھٹوکا بھوت ضیاء الحق کے اعصاب پر سوار تھا۔

کتاب ’دا ضیا ایئرز‘ کے مطابق  بھٹوکا بھوت ضیاء الحق کے اعصاب پر سوار تھا۔ فوٹو اے ایف پی

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کے لیے وہ انیس سو اسی میں نیو یارک گئے۔ پاکستانی قونصلیٹ کے دورے کے موقعے پر لائبریری جا نکلے۔ شیلف میں لگی  کتابوں میں سے ایک کتاب نکال کر جب اس کا صفحہ پلٹاتو ضیا ءالحق کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی تصویر ان کے سامنے تھی۔ تیزی سے پلٹے اور چلا کر بولے ’آپ لوگوں کے پاس اچھی کتابیں نہیں ہیں کیا۔‘
اسی ردعمل کی سوچ نے انہیں جمہوریت اور آئین سے حد درجہ برگشتہ کر دیا تھا۔ ملک میں سیاسی سرگرمیوں کو اپنے شخصی اقتدار کے لیے خطرہ خیال کرتے ہوئے اپنی مرضی اور مفاد کے سیاسی نظام کے لیے تگ و دو کرتے رہے۔
ان کے قریبی رفیق روئیداد خان اپنی کتاب ’پاکستان انقلاب کے دہانے پر‘ میں لکھتے ہیں کہ ضیاء الحق کے دل میں جمہوریت اور آئین کے لیے سوائے تحقیر اور تضحیک کے کچھ نہ تھا جس کا ثبوت انہوں نے تہران میں ایک اخباری کانفرنس میں یہ کہہ کر دیا ’آئین آئین آئین ہے کیا؟ دس بارہ صفحات کا کاغذی پرزہ جسے میں جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں۔ اگر میں آج اعلان کردوں کہ کل سے ہم مختلف نظام کے تحت زندگی بسر کریں گے تو مجھ کو کون روک سکتا ہے۔‘
ان کی مرضی کے نظام اور اپنی صدارت کے جواز کے لیے ریفرنڈم کروایا۔ 19 دسمبر 1984 کو ہونے والے ریفرنڈم کی کیفیت اور کامیابی کو سمجھنے کے لیے حبیب جالب کا ایک شعر ہی کافی ہے ۔
شہر میں ہو کا عالم تھا     جن تھا یا ر یفرنڈم تھا
روئیداد خان  کے اپنے الفاظ میں بحثیت سیکرٹری داخلہ میں نے راولپنڈی اسلام آباد کے پولنگ سٹیشنوں کا دورہ کیا تو وہ سب سنسان پڑے تھے۔ 
سماج اور سیاست کی غیر سیاسی تعمیر و تشکیل ان کے مجوزہ نظام کا اہم جزو تھا۔ اس لیے انہوں نے غیر سیاسی افراد پر مشتمل ایک متوازی ڈھانچا تشکیل دیا۔ جس میں بلدیاتی نظام کے 37000 کونسلرز، ایک لاکھ 75 ہزار ناظمین زکوۃ و عشر اور ایک لاکھ 80 ہزار ناظمین صلوۃ شامل تھے۔ ان سب کو وہ اپنی فوج قرار دیتے تھے۔

جنرل ضیا کے رفقائے کار میں جنرل فیض علی چشتی بھی شامل تھے۔ فوٹو وائٹ سٹار آرکائیو

ضیاء مغربی طرز کی جمہوریت کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے اسے برطانوی نو آبادیاتی دور کی باقیات خیال کرتے تھے۔ ان کے اس تصور پر مشاہد حسین سید نے بہت پر خیال اور دلچسپ تبصرہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا اپنا ادارہ بھی جس سے وہ قوت حاصل کرتے ہیں اسی برطانوی نو آبادیاتی دور میں تشکیل پایا۔ اس کی روایات اور ساخت اسی دور کی یادگار ہے۔ 
سوچ و فکر کے اسی تضاد نے ضیاء الحق کو اپنی ہی بنائی ہوئی اسمبلی اور وزیر اعظم سے بھی بیزار کر دیا ۔اپریل انیس سو اٹھاسی میں پارلیمنٹ سے خطاب میں انہوں نے اپنےہی قائم کردہ غیر جماعتی نظام پر شدید تنقید کی اور اس پر  بدعنوانی کے فروغ  اور اسلامائزیشن کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا ۔
فوجی قوت کے پہلو بہ پہلو اسلامی نظام کے اثرانگیز وعدوں اور دعووں کو انہوں نے اقتدار کی طوالت اور ایک مخصوص طبقہ کی حمایت کے حربے کے طور پر استعمال کیا ۔پیپلز پارٹی کے اقتدار سے فیضیاب ہونے والا جاگیردار طبقہ اب ان کی سادگی، عاجزی اور مذہبی بودوباش  سے متاثر ہو کر ان کے گن گا رہا تھا۔
اسی طرح پی این اے کی احتجاجی تحریک میں متحرک رہنے والے تاجر، چھوٹے دکاندار اور شہری مڈل کلاس کے شرفاء اسلامی نظام کے دلفریب نعرے  کے زیر اثر ان کے پرجوش حمایتی بن گئے۔
اس انداز حکمرانی اور فکر سے جن سماجی اور قانونی تضادات نے جنم لیا روئیداد خان کا تبصرہ انہیں سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ضیاء الحق کے ذہن میں قانون، آئین اور دور جدید میں جہانبانی کے تقاضوں کا کوئی تصور نہ تھا۔انہوں نے دیوانی اور فوجداری قوانین کو اسلامی رنگ دینا چاہا۔ اس سے ایسا عدالتی انتشار پیدا ہوا کہ اب اکثر و بیشتر لوگوں کو پتہ ہی نہیں لگتا کہ مقدمے میں کس قانون کا اطلاق ہوگا۔‘
جنرل کے ایم عارف کی ضیاء کے رفقاء کار میں سب سے طویل رفاقت رہی ۔جونیجو حکومت بننے کے بعد صوبائی گورنروں میں سے ان کے بااعتماد فضل حق اور غلام جیلانی طاقت کے ایوانوں سے باہر ہو گئے۔ کے ایم عارف وائس چیف آف آرمی سٹاف ہونے کی وجہ سے ان کے غیر اعلانیہ وارث خیال کیے جاتے تھے۔ انیس سو ستاسی میں انہیں باور کروایا گیا کہ ضیاء الحق انہیں  ملازمت میں توسیع دیں گے۔ مگر صرف تین ماہ بعد ہی پانچ دن کے نوٹس پر ان کی ریٹائرمنٹ کا پروانہ آگیا۔ ان کی جگہ مرزا اسلم بیگ اس عہدے پر فائز ہوئے۔

جنرل ضیا کے قتل کی سازش کا انکشاف جنوری 1984 میں ہوا۔ فوٹو وائٹ سٹار آرکائیو

جونیجو حکومت کے ساتھ ضیاء کے  اختلافات جنیوا معاہدے کے معاملے پر شدت اختیار کر گئے۔ گورباچوف  کے اعلان پر کے اگر پندرہ مارچ تک جنیوا معاہدے پر دستخط ہوں گے تو 15 مئی سے روسی افواج کا افغانستان سے انخلا شروع ہو جائے گا۔ ضیاء کا اصرار تھا کہ اصل مسئلہ روسی انخلاء نہیں بلکہ کابل میں عبوری حکومت کا قیام ہے۔ فروری انیس سو اٹھاسی کو کابینہ کے اراکین کے ساتھ میٹنگ میں انہوں نے زین نورانی کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے جلدی میں جنیوا معاہدے پر دستخط کیے تو لوگ انہیں سنگسار کر دیں گے۔ مارچ میں وزیراعظم کی افغانستان پر گول میز کانفرنس کو انہوں نے اپنے خلاف اقدامات سے تعبیر کیا۔
دو ماہ بعد نیشنل ڈیفنس کالج میں خطاب کرتے ہوئے دفاع کے وزیر مملکت رانا نعیم محمود کو ہدف تنقید بنایا ۔اس کی وجہ اوجری کیمپ کے واقعے کے بعد کابینہ کی کمیٹی کی طرف سے ضیاء الحق کے ذمہ دار ہونے کے بارے میں بحث و مباحثہ سے ان کی ناراضگی تھی۔
جونیجو حکومت کی رخصتی والے دن یعنی 29 مئی کو امریکہ میں مونوریل ڈے کی چھٹی تھی۔ مشاہد حسین سید اسے دلچسپ اتفاق قرار دیتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کی رات یعنی چار جولائی کو امریکہ میں یوم آزادی کی تعطیل تھی۔
اسی طرح ایک اور حیرت انگیز اتفاق  تھا کہ امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جارج کرسٹ نے 28 مئی کو ضیاء الحق کے ساتھ ڈنر کیا تھا۔ حکومت کی برطرفی والے دن صدر پاکستان کی امریکی سفیر کے ساتھ چار بجے شام ملاقات طے تھی۔
اپنے بنائے ہوئے نظام سے جان چھڑا کر ضیاء الحق نے متبادل نظام کے خدوخال پر غور کرنا شروع کر دیا اسلم بیگ کے مطابق انھیں اور حمید گل کو کہا گیا کہ وہ متبادل نظام کا خاکہ بنا کر پیش کریں۔ ان کی طرف سے الیکشن کروانے اور نئی حکومت کو اقتدار سونپنے کی تجاویز کوضیاء الحق نے  اپنے اقتدار کی مجبوریوں کا بہانہ بنا کر رد کر دیا۔ ان کے اپنے ذہن میں مجوزہ نظام کا کوئی نیا تصور نہ تھا بلکہ اپنی تعبیر و تشریح والا اسلامی نظام تھا جس کا ذکر وہ تواتر و تسلسل سے کرتے رہتے تھے۔
اس بار پھر انہوں نے اپنی بقاء کے لیے نفاذ شریعت کے اعلان کا سہارا لیا۔ 15 جون کو ان کے بیان کے بعد لگ رہا تھا کہ وہ مستقبل کے حکومتی نظام کے قیام کے لیے دوررس اقدامات اٹھانے جارہے ہیں۔ اسی بنیاد پر انہوں نے یہ اشارہ دیا کہ ڈاکٹر ظفر انصاری کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں جماعتی بنیادوں پر الیکشن غیر اسلامی ہیں۔ اگلے مرحلے میں یعنی 20 جولائی کو غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کی تاریخ بھی دے دی۔ حالانکہ 1985 کے غیر جماعتی الیکشن سے بننے والے نظام کو خود ہی منہدم کر چکے تھے

کتاب ’پاکستان انقلاب کے دہانے پر‘ کے مطابق کجنرل ضیاء کے دل میں جمہوریت کے لیے سوائے تحقیر کے کچھ نہ تھا۔ فوٹو فلکر

پاکستان پیپلز پارٹی نے اسمبلیوں کے خاتمے کے بعد نئے انتخابات کی امید میں سیاسی سرگرمیاں تیز کر دی تھی۔ بے نظیر بھٹو اپنی کتاب ’بے نظیر بھٹو: ڈاٹر آف دی ایسٹ‘ میں لکھتی ہیں کہ ضیاء الحق نے کچھ درمیانی روابط کی مدد سے ان کے ساتھ ڈیل کرنے کی کوشش کی ۔انہیں کہا گیا کہ الیکشن کروائے جائیں گے مگر شرط یہ ہے کہ ضیاء کے اقدامات کو قانونی تحفظ دیا جائے۔ ان کے خاندان کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی بھی طلب کی گئی۔
انتخابات کے غیر جماعتی ہونے کی شرط کو پیپلزپارٹی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔ 5 اکتوبر 1988 کو 12 رکنی فل بینچ نے الیکشن کے غیر جماعتی ہونے کو خلاف آئین قرار دیتے ہوئے اسے  کالعدم قرار دیا۔ بے نظیر بھٹو لکھتی ہیں کہ اگر ضیاءالحق اس وقت زندہ ہوتے تو وہ اس حکم کو غیر مؤثر کرنے کے لیے ملک میں ایمرجنسی تک لگا دیتے۔ یوں ان کی موت کے بعد نئے سیاسی انتظام کا فارمولا بھی عدالت کے ہاتھوں دفن ہو گیا۔
ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کی وجوہات اور اسباب کے بیان سے قبل ان کی موت کے بعد ہونے والی سیاسی اور قانونی کشمکش کا ذکر ہو جائے۔ ضیاء الحق کے منظر عام سے ہٹ جانے کے بعد ان کے سیاسی وارث غلام اسحاق خان نے ان کی عبوری  کابینہ کو برقرار رکھا۔ صوبوں میں نواز شریف، ظفر اللہ جمالی، فضل حق اور قاضی اختر نگران وزرائے اعلیٰ تھے۔ ان کی غلام اسحاق خان کے ساتھ تال میل کے ذریعے ضیاء الحق کے متعارف کردہ سیاسی اور قانونی ضابطوں  کو برقرار رکھنے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔
16 نومبر کے انتخابات کے لیے قائم مقام صدر نے قومی شناختی کارڈ کی پابندی لازمی قرار دینے کا حکم جاری کیا۔ اس سے قبل 1985 کے عام انتخابات اور 1987 کے بلدیاتی انتخابات میں یہ قدغن موجود نہ تھی۔ پیپلز پارٹی نے اس ضابطے کو اس اس کے دیہی  ووٹرز سے محروم کرنے کی سازش قرار دے کر عدالت سے رجوع کیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا مگر انتخابات سے کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر اسے قانونی جواز عطا کر دیا۔
13 اگست کو مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں ہنگامہ آرائی نے اس کی تقسیم کی بنیاد رکھ دی۔ ضیاء الحق کی رحلت نے تقسیم کے لیے حالات مزید سازگار بنا دیے۔ دو ہفتوں بعد صوبہ سرحد  کے سابق گورنر فدا محمد خان ایک دھڑے کے صدر اور نوازشریف سیکرٹری جنرل بن گئے۔ دوسرے گروپ کی سربراہی سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو کے پاس تھی۔ پہلے گروپ نے عام انتخابات کے لیے سات دیگر مذہبی جماعتوں کے اشتراک  سے اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا۔ آخری لمحات میں جونیجو گروپ بھی اس اتحاد کا حصہ بن گیا۔

جنرل اسلم بیگ کے مطابق جنرل ضیا کے طیارہ حادثے کے پیچھے سازش تھی۔ فوٹو وکیپیڈیا

دوسری جانب پیپلزپارٹی اور ایم آر ڈی میں شامل جماعتیں طویل مشترکہ جدوجہد کے باوجود انتخابی اتحاد کے لئے اکٹھی نہ ہو سکی۔انتخابات میں کامیابی کے باوجود قائمقام صدر کی جانب سے بے نظیر بھٹو کو نہ تو مبارکباد کا پیغام ملا اور نہ ہی حکومت سازی کی دعوت ۔اس معاندانہ  رویئے پر پیپلزپارٹی نے عالمی دباؤ کا ہتھیار استعمال کیا۔ مارک سیگل کے ذریعے امریکی سینیٹرز کو خطوط ارسال کیے گئے۔ برطانوی ممبر پارلیمنٹ اور دیگر مسلم ممالک کے حکمرانوں اوراقوام متحدہ کے اداروں کو خطوط کے ذریعے سیاسی بحران سے آگاہ کیا گیا۔ یہ حکمت عملی کارگر ثابت ہوئی اور بعد از خرابی بسیار بے نظیر بھٹو کو حکومت سازی کی دعوت ملی۔
33 برس قبل طیارے کی تباہی کے واقعے پر آج بھی پراسراریت اور سازشی نظریات کی گرد جمی ہوئی ہے۔ اسلم بیگ لکھتے ہیں کہ جنرل شمیم عالم نے تمام مسافروں کی موت کی اطلاع دی۔ انہوں نے واپس بہاولپور جانے یا جائے حادثہ پر پہنچنے کے بجائے واپس راولپنڈی آنا مناسب خیال کیا۔ جہاں بحری اور فضائی افواج کے سربراہوں کے مشورے کے بعد آئینی راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔شام ساڑھے سات بجے سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحاق خان کو بلا کر انہیں صدر کا منصب سنبھالنے کا کہا گیا۔
سابق وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل کے ایم عارف اپنی کتاب ’ورکنگ ود ضیاء‘ میں لکھتے ہیں کہ ضیاء کی موت کو تین گھنٹے تک راز میں رکھا گیا۔ اس دوران پس پردہ سیاسی عمل زور و شور سے جاری رہا۔اسلم بیگ کے دفتر میں دو امکانات پر غور ہوا۔ ایک یہ کہ ملک میں مارشل لاء لگا دیا جائے دوسرا یہ کہ آئینی راستہ اختیار کیا جائے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ آئین میں واضح لکھا ہوا ہے کے صدر مملکت کی موت یا ملک میں غیر موجودگی سے چیئرمین سینیٹ خود بخود صدر بن جائے گا ۔غلام اسحاق خان کو تو خودبخود صدر ہو جانا چاہیے تھا۔ آئین کی واضح ہدایات میں تاخیر کا جواز نہ تھا بلکہ ایسا کرنا روگردانی کے مترادف تھا۔
طیارہ حادثے سے ملکی و غیر ملکی میڈیا میں نت نئی افواہوں اور سازشی کہانیوں کا سیلاب امڈ آیا۔ ابتدا میں یہ اطلاعات گردش کرنا شروع ہوگئی کہ طیارے کو بھارتی سرحدد  جو کہ وہاں سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر تھی سے میزائل کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان اندیشوں کو اس لیے بھی تقویت ملی کے پندرہ اگست کو بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے سکھوں کی حمایت اور کشمیر کے حوالے سے پاکستان کو خبردار کیا تھا۔
بے نظیر بھٹو بیان کرتی ہیں کہ اسلام آباد کے سفارتی حلقوں میں افغان خفیہ ایجنسی خاد اور سوویت یونین کے اشتراک سے تیار کردہ سازش کی مبینہ کہانیاں تواتر سے دہرائی جاتی رہی۔
ہندوستان، سوویت یونین اور افغان ایجنسی کے مبینہ کردار کے بارے شکوک و شبہات کو تقویت اس بات سے بھی ملی کہ اسلم بیگ کی طرف سے کابینہ کو بریفنگ میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کی سازش اندرونی  لوگوں کی مدد کے بغیر کامیاب نہیں ہوتی۔
سازشی نظریات کا دوسرا حصہ اندرون ملک کسی مبینہ سازش کے تصور پر مبنی تھا ۔اس حوالے سے ضیاءالحق کے  کچھ قریبی ساتھیو ں اور ان کے سیاسی اور مذہبی مخالفین کا نام لیا جاتا رہا۔ 
ملک کا ایک قابل ذکر طبقہ اور قومی پریس کا ایک حصہ اس واقعہ کے پیچھے امریکی اور اسرائیلی سازش کے تانے بانے تلاش کرنے میں مگن تھا۔
مرزا اسلم بیگ اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ چار ہفتوں میں پاکستان ایئر فورس اور دیگر تین انکوائریوں میں واضح ہوگیا تھا کہ طیارے کی تباہی میں کسی کیمیکل یا گیس کی کوئی نشاندہی نہیں ہوئی۔ پائلٹ نے ایس وائس کال بھی نہیں دی گئی اس کا مطلب ہے کہ حادثہ کے پیچھے کوئی سازش تھی۔

جنرل ضیا کے دور میں نواز شریف وزیر خزانہ تھے۔ فوٹو اے ایف پی

امریکہ میں معروف تھنک ٹینک سے وابستہ دفاعی امور کے ماہر شجاع نواز اپنی کتاب Crossed Swords :Pakistan its Army and thw War Within میں طیارے کی تباہی سے جڑے بہت سارے نظریات اور انکوائریوں کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں ۔
وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے فضائی ماہرین کی مشترکہ ٹیم نے تحقیقات کیں۔ امریکی اہلکاروں کا زور اس بات پر تھا کہ از خود یا کسی بیرونی عمل سے  پائلٹ کا طیارے پر سے کنٹرول ختم ہوگیا تھا۔ اسی بنیاد پر یہ مفروضہ قائم کیا گیا کہ طیارے کے مکینیکل یا ہائیڈرالک نظام میں خرابی پیدا ہوئی گئی تھی جو حادثے کا باعث بنی۔
شجاع نواز کے خیال میں دوسرا نظریہ طیارے کے سبوتاژ کا تھا۔ جس کی چار ممکنہ صورتیں ہو سکتی تھی۔ فلائٹ کنٹرول سسٹم میں جان بوجھ کر تکنیکی خرابی پیدا کی گئی، کاک پٹ میں کسی شخص مداخلت حادثے کی وجہ بنی، جہاز کے پائلٹس کو کسی طریقے سے مفلوج یا معذور کر دیا گیا چوتھا یہ کہ مجرمانہ منصوبہ بندی کے ذریعے دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔
شجاع نواز کی تحقیق میں مزید کہا گیا کہ تحقیقاتی ٹیم کے  ممبرگروپ کیپٹن  ظہیر زیدی نے دیگر ساتھیوں کی مدد سے اکٹھے کیے گئے شواہد کا الیکٹران مائکروسکوپ لباٹری میں تجزیہ کیا گیا۔ جہاز کی سطح پر غیر معمولی مواد کے ذروں کے نشانات پائے گئے۔
اسی طرح طیارے کے مکینیکل نظام میں ممکنہ خرابی جانچنے کے لئے اس کے پمپ اور فلٹرز کا بھی تجزیہ کیا گیا تو اس میں کسی خرابی کی نشاندہی نہ ہوسکی۔ شجاع نواز کے خیال میں طیارے کی تباہی کسی دھماکہ خیز مواد سے ہوئی۔
بے نظیر بھٹو دور میں معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک پولیس افسر ایف کے بندیال کی سربراہی میں کمیشن قائم کیا گیا۔ اسلم بیگ کہتے ہیں کہ اس کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ایک ڈکٹیٹر کا انجام یہی ہونا تھا۔ ضیاءالحق کے فرزند اعجازالحق نے بندیال پر حقائق چھپانے کا الزام لگایا۔ انہوں نے جوابی خط میں اعجاز الحق کو کسی بھی جگہ انٹرویو اور حقائق بیان کرنے کا چیلنج دیا تو معاملہ خاموشی کی نظر ہوگیا ۔

طیارہ حادثے کی تحقیقات کے لیے بے نظیر بھٹو کے دور میں کمیشن قائم کیا گیا۔ فوٹو اے ایف پی

میاں محمد نواز شریف نے اپنے دور میں جسٹس شریف  کی سربراہی میں تین رکنی جوڈیشل کمیشن قائم کیا۔ جس نے طیارے کے مختلف حصوں کے تجزیے کا حکم دیا مگر یہ کمیشن بھی کوئی واضح نتیجہ اخذ نہ کر سکا ۔اسلم بیگ کہتے ہیں کہ وہ اس کمیشن کے سامنے پیش ہوئے تھے اور اس کمیشن کی رپورٹ میں طیارے کی تباہی کو حادثہ قرار دیا گیا تھا۔
جہاز کی تباہی میں آموں کے ممکنہ کردار کے بارے میں بیان کیا گیا مفروضہ حقیقت کے قریب تر سمجھا گیا۔ بہاولپور سے واپسی پر ضیاء الحق کے طیارے میں آموں کی دو بیٹیاں تحفہ کے طور پر رکھوائی گئی تھی۔ مبینہ طور پر یہ ام بہاولپور کے میئر اور ایک صوبائی وزیر کی طرف سے بھجوائے گئے تھے۔ جنہیں بعد میں شامل تفتیش کیا گیا لیکن کوئی سراغ نہ مل سکا۔
شجاع نواز کی کتاب میں کہا گیا ہے کہ جائے حادثہ پر جلے ہوئے آموں کا گودا اور گٹھلیاں جا بجا بکھری پڑی تھیں ۔ان کی بیرونی سطح پر 65 فیصد کے قریب پوٹاشیم کے ذرات موجود تھے ۔بورڈ آف انکوائری کی رپورٹ میں اس بارے میں کہا گیا کہ آموں کی پیٹیوں میں چھپائے گئے بارودی مواد سے نکلنے والی گیس نے مسافروں اور پائلٹس کو حواس سے بیگانہ کر دیا جس کی وجہ سے طیارہ تباہ ہوا۔
معروف صحافی اور دانشور محمد حنیف نے انہی پھٹتے آمو ں کے ذکر کو اپنے ناول A Case of Exploding Mangoes کا موضوع بنایا ہے۔ ایئر فورس کے ایک جونیئر افسر علی شگری کی زبانی اس علامتی اور تمثیلی ناول میں ضیاءالحق کے نظام کے تضادات اور شخصی دوہرے معیارات پر پر لطف انداز میں طنز کیا گیا ہے   یہ ناول 2008 میں انگریزی میں لکھا گیا۔ بارہ برس بعد جب اس کا اردو ترجمہ چھپا تو اس کی جلدیں ضبط کر دی گئی۔ 

شیئر: