Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان کے قبضے کے بعد ’ٹارگٹ کلنگ‘ کے بڑھتے واقعات، افغان شہری خوفزدہ

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خبردار کیا ہے کہ قتل کے کئی واقعات رپورٹ ہی نہیں ہو سکے (فوٹو اے پی)
طالبان کے کنٹرول والے علاقوں میں بڑھتے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات سے یہ خوف بڑھ رہا ہے کہ طالبان اپنے گذشتہ دور حکمرانی کو دہرا رہے ہیں۔
امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہزاروں لوگ افغانستان سے بھاگنے پر مجبور ہیں کابل ایئرپورٹ پر کئی روز سے لوگوں کا ہجوم دیکھا جا رہا ہے۔
جبکہ دیگر لوگ طالبان کے اقتدار پر قبضے کے خلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔
طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے گذشتہ دور کے مقابلے میں زیادہ متعدل رویہ رکھیں گے، امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنائیں گے اور سب کو معاف کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
جمعے کو طالبان نے مساجد کے اماموں سے اپیل کی کہ وہ لوگوں سے ملک نہ چھوڑنے کا کہیں اور متحد ہو جائیں۔
تاہم بہت سارے افغان شہریوں کو شک ہے کہ طالبان گذشتہ 20 برس میں حاصل ہونے والے فوائد کو ضائع کر دیں گے۔
جمعے کو سامنے آنے والی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ طالبان کے تبدیل ہونے کے دعوؤں کی تردید کرتی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اس کے ریسرچرز نے غزنی صوبے میں عینی شاہدین سے بات کی جنہوں نے بتایا کہ گذشتہ ماہ کے پہلے ہفتے میں طالبان نے ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو قتل کیا۔
ان کہنا ہے کہ چھ افراد کو گولیاں ماری گئیں، جبکہ تین کو تشدد کرکے مار دیا گیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سربراہ ایگنز کالامارڈ کا کہنا ہے کہ ’یہ ہلاکتیں طالبان کے گذشتہ دور حکومت کی یاد دلاتی ہیں اور طالبان کے طرز حکومت کی جانب ایک خوفناک اشارہ ہے۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خبردار کیا ہے کہ اس طرح کے کئی واقعات رپورٹ ہی نہیں ہو سکے، کیونکہ طالبان نے زیر قبضہ علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بند کر دی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خبردار کیا ہے کہ اس طرح کے کئی واقعات رپورٹ ہی نہیں ہو سکے (فوٹو اے ایف پی)

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈز نامی صحافتی تنظیم نے کہا ہے کہ جرمن نشریاتی ادارے کے صحافی کے خاندان کو قتل کرنا ایک خطرناک صورتحال کی طرف اشارہ ہے۔
ڈوئچے ویلے کا کہنا ہے کہ طالبان نے ان کے رپورٹر کو ڈھونڈنے کے لیے گھر گھر جا کر تلاشی لی جو پہلے ہی جرمنی پہنچ چکے ہیں۔ نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ طالبان نے اس کے تین اور صحافیوں کی تلاش میں ان کے گھروں پر چھاپے مارے۔
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈز کے جرمن سیکشن کی کاتجا گلوجر کا کہنا تھا کہ ’افسوس، یہ سب ہمارے برے خدشات کی تصدیق کرتا ہے۔ طالبان کی ظالمانہ کارروائیاں ظاہر کرتی ہیں کہ افغانستان میں میڈیا ورکرز کی زندگیاں شدید خطرے میں ہیں۔‘
دوسری جانب اقوام متحدہ کو معلومات فراہم کرنے والے ناروے کے ایک نجی انٹیلیجنس گروپ نے کہا ہے کہ اس کے پاس ثبوت ہیں کہ طالبان نے ایسے لوگوں کی ’بلیک لسٹ‘ بنائی ہے جو گذشتہ حکومت یا امریکہ کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔
ایک ای میل میں اس گروپ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کہا کہ ان کا ادارہ ایسے دھمکی آمیز خطوط کے بارے میں جو افغان شہریوں کو بھیجے گئے۔ ان میں سے ایک شخص کو رواں ہفتے کابل میں طالبان اس کے گھر سے لے گئے تھے۔
تاہم اے پی آزادانہ طور پر ان دعوؤں کی تصدیق نہیں کر سکی۔

شیئر: