اسلام آباد ہائی کورٹ: ججز اور سول سرونٹس کو پلاٹس کی الاٹمنٹ غیر قانونی قرار
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تھا کہ ’حیرت انگیز طور پر کرپشن اور جرائم میں سزا پانے والے ججوں کو بھی پلاٹ ملے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے ججز اور سول سرونٹس کو حال ہی میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے معاملہ وفاقی کابینہ کو بھیجنے کی ہدایت کر دی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے جیوریسٹ فاؤنڈیشن کے چیئرمین ریاض حنیف راہی ایڈووکیٹ کی درخواست پر محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’ججز اور سول سرونٹس کو پلاٹ الاٹمنٹ کے حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں، حکومت اگر ججز اور سول سرونٹس کو پلاٹ دینا چاہتی ہے تو پہلے قانون سازی کرے۔‘
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق ’جن کو پلاٹ الاٹ ہو چکے انہیں منسوخ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کابینہ کرے گی، وفاقی کابینہ اگر یہ پیکج برقرار رکھنا چاہتی ہے تو قانون سازی کرائے۔‘
خیال رہے کہ فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ سوسائٹیز اتھارٹی نے ایف 14 اور ایف 15 میں 4 ہزار سے زائد پلاٹوں کی قرعہ اندازی کی تھی جس میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد، سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی سمیت متعدد ججز اور 22 گریڈ کے افسران کے نام پلاٹس نکلے تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے قرعہ اندازی کے ذریعے پلاٹوں کی الاٹمنٹ پر حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے ججز کے پلاٹوں کی الاٹمنٹ معطل کر دی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’حیرت انگیز طور پر کرپشن اور جرائم میں سزا پانے والے ججوں کو بھی پلاٹ ملے، پوری ضلعی عدلیہ کو پلاٹ ملے، اور جن کی زمینیں لی گئیں وہ انصاف کے لیے کہاں جائیں، طیبہ تشدد کیس میں سزا پانے والے، کرپشن پر ہٹائے جانے والے ججوں کو بھی پلاٹ ملے۔‘