Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہاؤسنگ سوسائٹیز میں پلاٹ خریدنے کے لیے پیسہ کہاں سے آیا؟ ایف آئی اے کی تحقیقات

پاکستان میں رئیل اسٹیٹ اور تعمیراتی شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ (فائل فوٹو: اے پی پی)
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالیاتی معاملات کی چھان بین شروع کر دی ہے۔
تحقیقات میں شامل ایک اعلیٰ افسر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ’ہم پچھلے 10 سال کا ریکارڈ چیک کریں گے کہ تیزی سے پھیلے والے ہاؤسنگ سوسائٹیز کے کاروبار میں پیسہ کس طریقے سے انویسٹ کیا گیا۔ ایف اے ٹی ایف کی سفارشات پر پہلے ہی پاکستان قانونی سازی کر چکا ہے اور اب اس قانون پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔‘  
انہوں نے بتایا کہ ’ان ہاؤسنگ سوسائٹیز میں زیادہ تر رقم بیرون ملک سے انوسٹمنٹ کے لیے لائی گئی ہے اور حالیہ قوانین کے مطابق اس انوسٹمنٹ کی منی ٹریل ہونا ضروری ہے۔ ہم نے محکمہ کوآپریٹو سے مل کر مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی ہیں جو نہ صرف ہاؤسنگ سوسائٹیز کی انتظامیہ سے ریکارڈ چیک کریں گی بلکہ پھر ان کا فرانزک آڈٹ بھی کیا جائے گا تاکہ شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ جبکہ دوسری طرف انوسٹمنٹ کرنے والوں اور پیسے کے ذریعے تک پہنچنے کے لیے بھی یہ طریقہ کار اختیار کیا جائے گا۔‘  
خیال رہے کہ اس سے پہلے بھی ایف آئی اے نے ہاؤسنگ سوسائٹیز کی چھان بین کے لیے حکومت سے نیب کی طرز کے اختیارات مانگے تھے۔

ترجمان محکمہ کواپریٹو کے مطابق ’یہ چھان بین سپریم کورٹ کے احکامات پر شروع کی گئی ہے'۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ایف آئی اے کے ترجمان جاوید میو کے مطابق 'ہاؤسنگ سوسائٹیز سے متعلق چھان بین میں کافی رکاوٹیں بھی آئی ہیں کیونکہ بعض کاروباری حضرات نے تحقیقات کو روکنے کے لیے عدالتوں سے حکم امتناعی بھی حاصل کر رکھے ہیں۔ تاہم ایف آئی اے اب کیس ٹو کیس معاملات کا جائزہ لے گا۔‘ 
دوسری طرف محکمہ کواپریٹو پنجاب نے بھی ہاؤسنگ سوسائٹیزکے مالی معاملات کی چھان بین کی تصدیق کی ہے۔
ترجمان محکمہ کواپریٹو کے مطابق ’یہ چھان بین سپریم کورٹ کے احکامات پر شروع کی گئی ہے جس میں ہاؤسنگ سوسائٹیز میں شفافیت لانا اور ایف اے ٹی ایف کی نئی گائیڈ لائنز پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے۔‘ 
پنجاب میں محکمہ کواپریٹو کے تحت اڑھائی سو سے زائد ہاؤسنگ سوسائٹیز رجسٹرڈ ہیں جن میں سب سے زیادہ صوبائی دارالحکومت لاہور میں ہیں۔ جہاں ایل ڈی اے سے رجسٹرڈ شدہ سوسائٹیز کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ تاہم موجودہ چھان بین کواپریٹو سوسائٹیز سے رجسٹرڈ پراجیکٹس کی جا رہی ہے۔  

ایف آئی اے کے مطابق بینکنگ ٹرانزیکشن کے ذریعے سرمایہ کاری کرنے والوں کو گبھرانے کی ضرورت نہیں۔ (فوٹو: اے ایم سی پاکستان)

تو کیا اس میں بیرون ملک سے انوسٹمنٹ کرنے والے بھی متاثر ہوں گے؟ اس سوال کے جواب میں ایف آئی اے کے اعلیٰ افسر کا کہنا تھا ’اس چھان بین میں ایک آدھے پلاٹ یا گھر میں انوسٹمنٹ کرنے والے اس طریقے سے متاثر نہیں ہوں گے اور جن کی ٹرانزیکشن بینکوں کے ذریعے کی گئی ہے ان کو بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ جن کے مالی معاملات مشکوک ہوں گے اور جنہوں نے بیرون ملک آف شور کمپنیوں کے ذریعے انوسٹمنٹ کی ہے، تحقیقات کا دائرہ ان تک پھیلا ہوا ہے۔‘ 
ایف اے ٹی ایف کی سفارشات پر قانونی سازی کے بعد ایف آئی اے نے اینٹی منی لانڈرنگ ڈیپارٹمنٹ بھی قائم کیا ہے جو ملک کے اندر اور باہر رقوم کی ترسیل کی چھان بین کر رہا ہے۔ اسی طرح نیب نے بھی اپنی الگ سے تحقیقات شروع کر رکھی ہیں۔

شیئر: