Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’حکومت نے کارکردگی دکھانے کے لیے انڈین سائٹ کی تصویریں استعمال کیں‘

مریم اورنگزیب کے مطابق حکومت کی کارکردگی رپورٹ میں تصاویر انڈین ویب سائٹ سے خریدیں گئیں۔ فوٹو: انسٹا مریم اورنگزیب
پاکستان مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے تین سالہ کارکردگی کے اشتہارات پر لگائی گئی تصاویر انڈین ویب سائٹ سے لی ہیں۔ 
مریم اورنگزیب نے جمعرات کو ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ استعمال شدہ تصاویر ایک انڈین ویب سائٹ کی ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے ویب سائٹ کا لنک بھی شیئر کیا۔ 
سٹاک امیجز وہ تصویریں ہوتی ہیں جو کوئی بھی فرد اپنے ذاتی کام کے لیے خرید کر لگا سکتا ہے۔ سٹاک امیجز انٹرنیٹ پر اشتہارات بنانے اور مہم چلانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
مریم اورنگزیب نے ٹویٹ میں کہا کہ ’جعلساز عمران صاحب نے تین سال کی اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے انڈین ویب سائٹ (http://imagesbazaar.com) کی تصویریں استعمال کی ہیں۔ لنک سے عمران خان حکومت کی کارکردگی رپورٹ کے ثبوت بمع تصویر دیکھے جاسکتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ جمعرات کے روز پاکستان تحریک انصاف نے اپنی حکومت کے تین سال پورے ہونے پر عوامی جلسہ منقعد کیا تھا جس میں وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کی کارکردگی قوم کے سامنے پیش کی تھی۔
مریم اورنگرزیب نے ایک اور ٹویٹ میں کہا کہ ’عمران صاحب کو مسیحا دکھانے کے لیے وزارت اطلاعات کے کروڑوں روپے کے خوشحالی کے منصوبے انڈین پورٹل کی چوری شدہ تصاویر پر مبنی ہیں۔ مہنگائی کم ہوتی تو پاکستان کے بازاروں کی تصویریں ہوتیں۔‘
مریم اورنگزیب کے الزامات کے جواب میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے معاون برائے ڈیجیٹل میڈیا اظہر مشوانی نے ٹویٹ کیا کہ اشتہارات حکومت خود بیٹھ کر نہیں بناتی، ایڈ ایجنسیاں بناتی ہیں جو مختلف ذرائع سے ڈیٹا خرید کر استعمال کرتی ہیں۔
اظہر مشوانی نے ٹویٹ میں مسلم لیگ ن کی جانب سے چلنے والا ایک اشتہار شیئر کیا جس میں استعمال کی گئی تصویر مبینہ طور پر کسی ویب سائٹ سے لی گئی تھی۔ اظہر مشوانی نے لکھا کہ  ’ن لیگی حکومت کے اشتہارات میں بھی اسی ویب سائٹ کی تصاویر استعمال کی گئیں اگر یہ تصاویر انڈیا کی ہیں تو  فواد چودھری صاحب کو ایجنسی کے خلاف ایکشن لینا چاہیے۔‘
حسن نامی ایک ٹوئٹر صارف نے کہا کہ ’کوئی مریم اورنگزیب کو  سوشل میڈیا کے لیے سٹاک تصاویر کے استعمال کا تصور سمجھائے۔‘

ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں جہاں عام آدمی بھی فیک نیوز کے نرغے میں ہے، وہیں حکومت اور سرکاری عہدیدار بھی فیک نیوز میں پھنس جاتے ہیں جس کے بعد انھیں شدید تنقید اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

شیئر: