طالبان کے سینیئر رہنما شیر محمد ستنکزئی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ کابینہ میں خواتین کی شمولیت نہیں ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’خواتین کو کام کرنے کی اجازت ہے۔ لیکن شاید مستقبل میں آنے والی حکومت کی کابینہ یا کسی بھی اعلیٰ عہدے پر ان کے لیے جگہ نہ ہو۔‘
مغربی شہر ہرات میں 50 خواتین نے کام کی آزادی اور نئی حکومت میں خواتین کی نمائندگی کے لیے احتجاج کیا ہے۔
خواتین احتجاج کے دوران ’تعلیم حاصل کرنا، کام کرنا اور سکیورٹی ہمارا حق ہے‘ کے نعرے لگا رہی تھیں۔ انہوں نے کہا ’ہم خوف زدہ نہیں ہیں، ہم متحد ہیں۔‘
ہرات کا شمار افغانستان کے خوشحال ترین شہروں میں ہوتا ہے اور وہاں لڑکیوں نے سکول جانا شروع کر دیا ہے۔
احتجاجی مظاہرے کی منتظمین میں سے ایک بسیرا طاہری نے کہا کہ ’طالبان خواتین کو حکومت میں شامل کریں۔‘
’ہم چاہتی ہیں کہ طالبان ہمارے ساتھ مشورہ کریں۔ ہمیں ان کے اجتماعوں اور ملاقاتوں میں خواتین نظر نہیں آئیں۔‘
افغانستان سے جانے والے افراد میں ایک خاتون صحافی بہشتہ ارغند بھی تھیں جنہوں نے قطر میں اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’افغانستان میں خواتین کی حالت بہت بری ہے۔ میں بین الاقوامی برادری سے کہنا چاہتی ہوں کہ وہ خواتین کے لیے جو کر سکتے ہیں کریں۔‘