افغانستان میں امن کے لیے طالبان،امریکہ پارٹنر بن سکتے ہیں:عمران خان
افغانستان میں امن کے لیے طالبان،امریکہ پارٹنر بن سکتے ہیں:عمران خان
جمعہ 24 ستمبر 2021 15:36
عمران خان نے کہا کہ ’امریکہ کی انڈیا کے لیے ملٹری سپورٹ کا مقصد چین کا مقابلہ کرنا ہے۔‘ (فوٹو اے ایف پی)
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے طالبان امریکہ کے پارٹنر بن سکتے ہیں۔
جمعے کو امریکی جریدے نیوز ویک کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ امریکہ اور خطے کی بڑی طاقتوں کے درمیان تعاون ہی سے کسی بڑی تباہی سے بچا جا سکتا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ ’پرامن افغانستان سے پاکستان کو فائدہ ہوگا جس سے تجارت اور ترقی کے منصوبوں کے راستے کھلیں گے۔ تاہم کورونا کی وبا، کشیدگی اور گذشتہ حکومت کی ناکامی کے باعث افغانستان بحران کا شکار ہے۔ اس کو حل کرنا پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔‘
’ٹی ٹی پی کے حملوں کو روکنے کے لیے بھی ہمیں کابل حکومت سے بات چیت کرنی ہوگی جس نے پاکستان پر سینکڑوں دہشت گردانہ حملے کیے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان اور امریکہ دونوں کو افغانستان سے دہشت گرد حملے روکنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے ہمیں افغانستان کے استحکام کے لیے تعاون کرنا چاہیے جس کے لیے انسانی بحران پر قابو پانے اور معیشت کو بہتر کرنے میں حمایت کی ضرورت ہے۔‘
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’چین افغانستان کو معاشی سپورٹ دے رہا ہے جو ایک قدرتی عمل اور افغان عوام اسے قبول کریں گے۔ طالبان نے سی پیک کا حصہ بننے کا خیرمقدم کیا ہے اور وہ چین کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر رہے ہیں۔‘
’تاہم امریکہ بھی انسانی امداد، افغانستان کی بحالی، تعمیر نو اور دہشت گردی کی روک تھام میں تعاون کر کے افغانستان میں مثبت اور اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ میرا یقین ہے کہ امریکہ مشترکہ مفادات اور خطے کے استحکام کے لیے افغانستان میں نئی حکومت کے ساتھ کام کر سکتا ہے۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ ’افغانستان کو انسانی اور معاشی بحران سے بچانے اور دہشت گردی کو روکنے کے لیے پاکستان طالبان کے ساتھ کام کرے گا۔ تاہم پاکستان افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی مشاورت سے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرے گا۔‘
خطے میں امریکہ، انڈیا تعلقات
امریکہ اور انڈیا کی تعلقات کے حوالے عمران خان نے کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں امریکی کی انڈیا کے لیے ملٹری سپورٹ کا مقصد چین کا مقابلہ کرنا ہے جس میں نام نہاد ’کواڈ‘ بھی شامل ہے۔‘ پاکستان اس حکمت عملی کو اپنے نظریے سے دیکھتا ہے۔‘
’ہمارے خیال میں انڈیا کبھی بھی چین سے نہیں لڑے گا، خاص طور پر امریکی سٹریٹیجک مفادات کی خاطر۔ انڈیا کا مقصد اسلحہ اکٹھا کرنا ہے تاکہ وہ خطے میں اپنی اجارہ داری قائم کر سکے اور پاکستان کو دھمکا سکے اور دباؤ ڈال سکے۔ انڈیا کی 70 فیصد فوجی تنصیبات کا نشانہ پاکستان ہے چین نہیں۔‘
عمران خان نے کہا کہ ’لہذا انڈیا کو جدید ہتھیار اور ٹیکنالوجی فراہم کرنے پر پاکستان کی تشویش جائز ہے۔ جنگ کے موقع پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ اسلحے کی دوڑ پاکستان اور انڈیا کی توجہ لوگوں کی ویلفیئر کے کاموں سے ہٹ سکتی ہے۔‘
’پاکستان افغانستان سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ’سلیکٹو‘ نہیں جامع تعاون چاہتا ہے اور ہم امریکہ سمیت بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر اس کے لیے تعاون کریں گے۔‘
کیا پاکستان، امریکہ اور چین دشمنی کا شکار ہو سکتا ہے؟
اس سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ ’پاکستان کے چین کے ساتھ 70 سالہ تعلقات ہیں جس میں معاشی، ٹیکنالوجی، ملٹری اور دیگر شعبوں میں تعاون شامل ہے۔ اس عرصے میں پاکستان نے امریکہ کے ساتھ بھی قریبی تعلقات رکھے۔ دراصل یہ پاکستان تھا جو 1971 میں امریکہ اور چین کو قریب لایا۔ لہذا ہمیں نہیں لگتا کہ چینن کے ساتھ سٹریٹیجک تعلقات کا اثر امریکہ اور پاکستان کے تعلقات پر پڑے گا۔‘
’ہمیں یقین ہے کہ امریکہ اور چین کی لڑائی غیر ضروری ہے اور دونوں عالمی طاقتوں کے مفادات کے خلاف ہے۔ تعاون سے دونوں کو فائدہ ہوگا اور یہ عالمی مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے جن میں کورونا کی وبا، ترقی پذیر ممالک میں معاشی بحران اور موسمیاتی تبدیلی شامل ہے۔ ہمیں امید ہے کہ چین اور امریکہ مستقبل قریب میں اسی نتیجے پر پہنچیں گے۔‘
شنگھائی تعاون تنظیم اور افغانستان
وزیراعظم نے کہا کہ ’شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں ہم نے افغانستان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں پاکستان کا نقطہ نظر سامنے رکھا اور اس کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے راستے بتائے۔ اگر انڈیا پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے لیے مثبت پوزیشن لیتا ہے تو خطے میں استحکام اور خوشحالی کے لیے ایس سی او کارآمد پلیٹ فارم ثابت ہو سکتا ہے۔‘