Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رونالڈو کے دیس میں افغان خواتین فٹ بالرز کی ٹریننگ شروع

گذشتہ 15 سالوں میں افغانستان میں خواتین کی فٹبال ٹیم منظر عام پر آنا شروع ہوئی ہے۔ فوٹو: روئٹرز
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان چھوڑ کر پرتگال میں پناہ لینے والی خواتین کی قومی فٹ بال ٹیم کی کھلاڑیوں نے دارالحکومت لزبن کے مضافات میں فٹ بال کی ٹریننگ ایک مرتبہ پھر شروع کر دی ہے۔
19 ستمبر کو پرتگال پہنچنے والی افغان خواتین کھلاڑیوں کو اس بات کی بھی بے حد خوشی ہے کہ انہیں ایسے ملک میں رہنے کا موقع ملا ہے جہاں سے کرسٹیانو رونالڈو جیسے نامور فٹ بالرز کا تعلق ہے۔
چھ ماہ بعد ہونے والے اپنے پہلے ٹریننگ سیشن کے دوران ام البنین رمزی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’مجھے یقین نہیں آتا۔ میں بہت خوش ہوں کہ ایک بار پھر فٹ بال کھیل سکتی ہوں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ افغانستان میں اس کھیل کے لیے حالات بہت خراب ہیں۔
چہرے پر مسکراہٹ لیے انہوں نے بتایا کہ ’مجھے خوشی ہے کہ میں پرتگال میں ہوں کیونکہ کرسٹیانو رونالڈو کا بھی یہیں سے (تعلق) ہے۔‘
لال شرٹ پہنے اور سر پر کالا کپڑا باندھے ام البنین کا کہنا تھا کہ وہ کرسٹیانو رونالڈو سے ضرور ملنا چاہیں گی۔
اگست کے وسط سے کئی بار افغانستان سے نکلنے کی کوششوں کے بعد خواتین فٹ بالرز کی ٹیم بلآخر پرتگال پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ فی الحال ٹیم کے تمام کھلاڑی عارضی طور پر لزبن کے مضافات میں واقع ہوٹلوں میں مقیم ہیں۔
پرتگال کی حکومت کا کہنا ہے کہ پرتگال اور امریکہ کے مشترکہ آپریشن کے باعث یہ خواتین کھلاڑی افغانستان سے نکلنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔  
طالبان کی جانب سے خواتین کے معاشرے میں اہم کردار ادا کرنے کی مخالفت پر بعد ام البنین اور ان کی ساتھی کھلاڑیوں نے افغانستان چھوڑنے کا ارادہ کر لیا تھا۔
15 اگست کو اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان نے کہا تھا کہ خواتین فٹ بال تو کھیل سکتی ہیں لیکن اس کے لیے انہیں سخت شرائط ماننا ہوں گی، جن میں سے ایک باہر کھلے میدان میں کھیلنے پر پابندی شامل تھی۔

پرتگال کی حکومت کا کہنا تھا یہ کھلاڑی اس وقت افغانستان سے پرتگال پہنچیں جب دونوں ممالک کے حکام نے مشترکہ آپریشن کیا۔ فوٹو: روئٹرز

کھیل کا ایک بار پھر آغاز

خواتین فٹ بال ٹیم کی سینیئر کھلاڑیوں کو شدت پسندوں نے دھمکی دی تھی اور کچھ کو تو طالبان نے مارا بھی تھا۔ ان میں سے کئی کھلاڑی اگست کے آخر میں آسٹریلیا چلی گئیں تھیں۔
افغانستان میں 1996 سے 2001 کے دوران رہنے والے اپنے دور اقتدار میں طالبان نے خواتین کے کھیلوں میں حصہ لینے یا میچ دیکھنے جانے پر پابندی لگائی تھی۔
تاہم گذشتہ 15 سالوں میں افغانستان میں خواتین کی فٹ بال ٹیم منظر عام پر آنا شروع ہوئی اور اس وقت سے ملک میں اس کھیل کا رجحان بہت بڑھا ہے۔
ڈنمارک میں مقیم سابق قومی کپتان خالدہ پوپل جو اب قومی ٹیم کی مینیجر ہیں نے اگست میں اے ایف پی کو بتایا تھا کہ ’فٹ بال فیڈریشن میں مختلف سطحوں پر تقریباً تین سے چار ہزار خواتین اور لڑکیاں ریجسٹرڈ تھیں۔‘
لیکن وہ سب ایک رات میں ختم ہوگیا جب افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہوا۔
ام البنین، ان کی ساتھی کھلاڑی اور ان کے اہلِ خانہ نے جس وقت افغانستان چھوڑا تھا ان کے پاس ذاتی سامان کے نام پر زیادہ کچھ نہیں تھا، یہاں تک کہ ان کے پاس اپنے فٹ بال کٹس بھی نہیں تھے۔ لیکن ٹیم کی کپتان فرخندہ محتاج نے ان کا یہ مسئلہ حل کردیا۔
انہوں نے کنیڈا سے پرتگال تک کا سفر کر کے ٹریننگ سیشن سے ایک دن پہلے کھیل کا ضروری سامان ڈلیور کردیا تھا۔

شیئر: