دلی کی حکومت نے سرکاری سکولوں میں دیش بھکتی پڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اب دیش بھکتی یا حب الوطنی تو سب کے اندر ہوتی ہی، بس ڈگری کا فرق ہوتا ہے، کسی کے اندر تھوڑی کم کسی میں کچھ زیادہ۔
کچھ گلی کوچوں میں اپنی حب الوطنی کا ڈھنڈورا پیٹتے پھرتے ہیں، کچھ بس یہ تماشا دیکھا کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کاش ہمیں بھی معلوم ہوتا کہ ملک سے محبت کیسے کی جاتی ہے۔
ہم بھی ایک جھنڈا اٹھاتے اور نکل پڑتے کیونکہ آج کل پرانے زمانے کی دیش بھکتی آؤٹ آف فیشن ہوگئی ہے۔ وہ زمانے لد گئے جب لوگ سوچتے تھے کہ وقت پر ٹیکس ادا کرنا، قانون کی پاسداری کرنا، ضرورت مندوں کی خاموشی سے مدد کرنا اور عزت اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنا بھی حب الوطنی ہی ہوتی ہے۔
تو ایسے لوگوں کے لیے اچھی خبر ہے کیونکہ دلی کی حکومت نے سرکاری سکولوں میں دیش بھکتی پڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب کام کافی آسان ہوجائے گا کیونکہ اب تک دیش بھکتی کا پورا ٹھیکا صرف بی جے پی والوں کے پاس تھا۔ وہ جسے چاہتے تھے دیش بھکت یا غدار کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیتے تھے۔
وہ بھی امتحان تو لیتے تھے لیکن ان کا نصاب ذرا مختلف تھا۔ ان کی تعریف کرتے رہیے تو سب ٹھیک ہے، ذرا بھٹکے تو غدار کی تختی گلے میں لٹکا دی جاتی۔
لیکن اب آپکے بچوں کو اس مشکل کا سامنا نہیں ہوگا۔ اگر ان کی حب الوطنی کو کوئی چیلنج کرے گا تو وہ اپنا سکول کا رپورٹ کارڈ نکال کر اس کے ہاتھ میں رکھ دیں گے کہ لو بھائی دیکھ لو ہم نے تو دیش بھکتی میں ڈسٹنکشن حاصل کی تھی، تم اپنی بتاؤ تہمارے کتنے نمبر آئے تھے؟ تم کیسے پاس ہوئے تھے؟ برابر والے کی دیش بھکتی کی نقل تو نہیں کر لی تھی؟
سچ یہ ہے کہ دیش بھکتی کو کچھ لولوں نے اب ایک سیاسی حکمت عملی کے طور پر ہندوتوا سے کنفیوز کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس لیے نہیں کہ انہیں اصل دیش بھکتی کی تشریح نہیں معلوم، بس اس لیے کہ آج کل ہندوتوا اور حکمرانی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
لیکن نقصان یہ ہوا ہے کہ اب بہت سے لوگوں کی نظروں میں قوم پرستی، حب الوطنی اور سیاسی نظریے میں فرق ختم ہوگیا ہے۔
سیاست لوگ اقتدار حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ اقتدار حاصل کرنے اور اس پر قابض رہنے کا روڈ میپ بی جے پی نے طے کر دیا ہے۔ اس لیے کچھ پارٹیاں کھل کر اور کچھ درپردہ وہی فارمولا اختیار کر رہی ہیں۔
دلی میں حکمراں عام آدمی پارٹی سکولوں میں دیش بھکتی کا نصاب متعارف کرا کر بی جے پی کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ دیش بھکتی پر صرف اس کی اجارہ داری نہیں ہے۔
چند روز قبل پارٹی نے اتر پردیش کے ایودھیا شہر میں، جہاں کبھی بابری مسجد ہوا کرتی تھی اور اب رام مندر زیر تعمیر ہے، ترنگا یاترا نکالی تھی۔ دلی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت پانچ سو قومی ترنگے نصب کر رہی ہے۔ یہ قومی پرچم سو فٹ اونچے کھمبوں سے لہرائیں گے اور آپ جب سر اٹھا کر دیکھیں گے تو آپ کو اپنے آس پاس ہی ترنگا نظر آئے گا، اور آپ کے اندر دیش بھکتی کا جذبہ اور مضبوط ہو جائے گا۔
لیکن دلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کے مطابق دیش بھکتی کا نصاب متعارف کرانے کا مقصد بہت سادہ ہے، اس میں کوئی پھیر یا پیچ نہیں ہے۔ بچوں کو سکولوں میں ہی یہ پڑھایا اور سکھایا جائے گا کہ پیسے کے پیچھے نہ بھاگیں، ڈاکٹر بنیں، انجینیئرنگ پڑھیں اور بس قوم کی خدمت میں لگ جائیں، بے لوث۔
یہ کام چھٹی کلاس سے شروع ہو جائے گا اور آٹھویں تک روزانہ چالیس منٹ کی ایک کلاس ہوگی۔ بچے دیش کے لیے عظیم قربانیاں دینے والے ہیروز کے بارے میں پڑھیں گے اور گھر جاکر اپنے والدین اور بھائی بہنوں سے بھی اس بارے میں بات کریں گے تا کہ وہ محروم نہ رہ جائیں۔
مسٹر کیجریوال کے مطابق آئیڈیا یہ ہے کہ ہمارے اندر حب الوطنی کا جذبہ چوبیسوں گھنٹے زور مارے، صرف اس وقت نہیں جب ہم قومی ترانہ گا رہے ہوں یا دیش بھکتی پر کوئی فلم دیکھ رہے ہوں۔
تو ایک عام ڈاکٹر اور دیش بھکت ڈاکٹر میں کیا فرق ہوگا؟ عام ڈاکٹر صرف یہ سوچے گا کہ وہ کس طرح زیادہ سے زیادہ پیسے کما سکتا ہے، دیش بھکت ڈاکٹر یہ دیکھے گا کہ وہ کس طرح زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مدد کرسکتا ہے۔
بچوں کو اور بھی بہت سی چیزیں پڑھائی جائیں گی۔ وہ خواتین کا بھی احترام کریں اور دوسرے مذاہب پر عمل کرنے والوں کا بھی اور معاشرتی برائیوں کے بارے میں سمجھیں گے اور ان سے بچیں گے۔
آئیڈیا برا نہیں ہے لیکن سکولوں کے نصاب میں کیا یہ سب ویسے ہی شامل نہیں ہونا چاہیے؟