Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پہلی باضابطہ ملاقات، امریکی وفد آج قطر میں طالبان سے ملے گا

امریکی وفد کی اولین ترجیح طالبان کو اس وعدے پر قائم رکھنا ہوگا کہ وہ افغانستان کو دوبارہ القاعدہ یا دیگر شدت پسندوں کا گڑھ نہیں بننے دے گے۔ (فوٹو: روئٹرز)
امریکہ کا ایک سرکاری وفد سنیچر اور اتوار کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان کے سینیئر نمائندوں سے ملاقات کرے گا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے امریکی انتظامیہ کے دو عہدیداروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا اور طالبان کے کنٹرول کے بعد یہ اعلٰی سطح پر پہلی ملاقات ہوگی۔
امریکی عہدیداروں کے مطابق اعلٰی سطحی امریکی وفد میں محکمہ خارجہ، یو ایس ایڈ اور امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کے عہدیدار شامل ہوں گے جو طالبان پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ امریکی شہریوں اور دیگر کے افغانستان سے باہر جانے کے لیے محفوظ راستے کو یقینی بنائیں اور مغوی امریکی شہری مارک فریریز کو رہا کریں۔
ایک اور اولین ترجیح طالبان کو اس وعدے پر قائم رکھنا ہوگا کہ وہ افغانستان کو دوبارہ القاعدہ یا دیگر شدت پسندوں کا گڑھ نہیں بننے دیں گے۔
اس کے علاوہ انسانی امداد کی رسائی کو بہتر بنانے کے لیے بھی ان پر دباؤ ڈالا جائے گا کیونکہ ملک کو 'نہائیت شدید اور ممکنہ طور پر نہ رکنے والے' معاشی بحران کے خطرے کا سامنا ہے۔
امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد، جو کئی برسوں سے طالبان کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات کی قیادت کر رہے ہیں اور گروپ کے ساتھ امن مذاکرات میں اہم شخصیت ہیں، وفد کا حصہ نہیں ہوں گے۔
امریکی حکام کے مطابق وفد میں محکمہ خارجہ کے نائب نمائندہ خصوصی ٹام ویسٹ کے علاوہ یو ایس ایڈ کی اعلٰی اہلکار سارہ چارلس بھی شامل ہوں گی، جبکہ طالبان کی جانب سے کابینہ کے عہدیدار شرکت کریں گے۔

افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد طالبان اور امریکی وفد کی یہ پہلی باضابطہ ملاقات ہوگی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ملاقات کے حوالے سے ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ’یہ ملاقات طالبان کے ساتھ عملی مذاکرات کا تسلسل ہے جو ہم نے اہم قومی مفادات کے معاملات پر جاری رکھے ہیں۔‘
' یہ ملاقات (طالبان حکومت کو) تسلیم کرنے یا قانونی حیثیت دینے کے بارے میں نہیں ہے۔ ہم اس پر واضح ہیں کہ کوئی بھی قانونی حیثیت طالبان کے اپنے اقدامات سے حاصل کی جانی چاہیے۔ انہیں ایک مستقل ٹریک ریکارڈ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔'
دوسری جانب دوحہ میں مقیم طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے سنیچر کو امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ مذاکرات میں طالبان کے واشنگٹن کے ساتھ 2020 میں طے پانے والے امن معاہدے پر بھی نظر ثانی کی جائے گی۔
خیال رہے کہ اسی معاہدے نے امریکہ کے حتمی انخلا کی راہ ہموار کی تھی۔
سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ 'ہاں ایک میٹنگ ہے۔ دوطرفہ تعلقات اور دوحہ معاہدے کے نفاذ کے بارے میں۔ اس میں مختلف موضوعات شامل ہیں۔'
یاد رہے کہ امریکہ کے افغانستان پر دو دہائیوں پر محیط قبضے کا اختتام اگست میں فضائی انخلا پر ہوا جس میں ایک لاکھ 24 ہزار سے زائد شہریوں بشمول امریکیوں، افغانوں اور دیگر کو طالبان کے کنٹرول کے بعد نکالا گیا۔

شیئر: