دل درد کی بھٹی میں کئی بار جلے ہے
تب ایک غزل حسن کے سانچے میں ڈھلے ہے
شعر صاحب طرز شاعر 'کلیم عاجز' کا ہے، مگر اس خوبصورت شعر میں ہماری توجہ دہکتی 'بھٹی' پر ہے۔ قدیم زمانے میں جب کاروان دساور سے آتے اور جاتے تھے، تب سرِ راہے کاروان سرائیں آباد تھیں۔ جن میں کھانا پکانے کی ذمہ داری 'بھٹیارن' کی ہوتی تھی۔
غور کریں تو 'بھٹیارن' کو سیدھے سیدھے 'بھٹی' سے نسبت ہے کہ وہ اس کا انتظام و استعمال کرتی ہے اور مسافروں کے لیے کھانا بناتی ہے۔
اس 'بھٹیارن' کی تذکیر 'بھٹیارا' اور 'بھٹیار' ہے۔ یہ درحقیقت دو الفاظ 'بھٹ' اور 'یار' سے مرکب ہے۔ کسی چیز کی قربت کی وجہ سے صاحب قربت کو یار کہنا ادیبوں کی ہاں تو رائج ہے ہی، مگر پیشہ وروں میں بھی اس کو دیکھا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
’انور‘ کو ’مہ‘ سے کیا نسبت ہے؟Node ID: 460936
-
دلہن کی مہندی اور اردو زباںNode ID: 601776
-
مردانہ، زنانہ فرسوده زمانہ اور ہمارا افسانہNode ID: 606171
اسے 'ہتھیار' یعنی 'ہاتھ کا یار' میں دیکھا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ ہتھیار میں فقط اسلحہ ہی شامل نہیں بلکہ آلات و اوزار بھی اس کی تعریف میں داخل ہیں۔
’بھٹی‘ کی ایک صورت ’بَھٹا ‘ ہے۔ اس میں اینٹیں پکائی جاتی ہیں۔ بھٹی اور بھٹے کو ’ آوا ‘ بھی کہتے ہیں۔’آوے‘ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ذرا انگریزی کے oven (اوون) پر غور کریں تو دونوں کے درمیان صوتی مماثلت اور مشترکہ مفہوم ’ پکانا ‘ خود ظاہر ہو جائے گا۔چوں کہ حرف ’ V‘ اور ’ F ‘ کی آوازیں اکثر صورتوں میں ایک دوسرے سے بدل جاتی ہیں۔یوں انگریزی oven جرمن زبان میں ofen (اوفن) ہے۔اس صوتی تبدیلی کی ایک مثال انگریزی لفظ ’ویڈیو‘ ہے جسے عربی میں ’فیدیو‘ بھی لکھا جاتا ہے۔
ایک تجزیہ کار حالات پر پُرجوش تبصرہ کر رہے تھے کہ ' فلاں ۔۔۔ کا آوے کا آوا ہی نرالا نکلا۔‘
آوے کا آوا نرالا نکلا یا نہیں مگر محاورے کا جنازہ ضرور نکل گیا۔ اس ’نرالے محاورے‘ سے یہ صاف ظاہر ہے کہ لکھنے والا درست محاورے اور ’آوے‘ کے معنی سے نا واقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دو مختلف محاروں کا ’ کاٹیل‘ بنادیا ہے۔’ نرالا نکلنے ‘ سے متعلق درست محاورہ ’ باوا آدم نرالا نکلا ‘ ہے۔

دوسری طرف ’ آوے ‘ کی رعایت سے محاورہ ’ آوے کا آوا بگڑنا اور آوے کا آوا ٹیڑھا ہونا ‘ ہے۔’ آوے‘ میں تپش کا تناسب بگڑ جانے پر’اینٹیں‘ ٹیڑھی ہو جاتی ہیں۔ محاورے میں اسی جانب اشارہ ہے۔ یہ محاورہ اس وقت برتا جاتا ہے جب پورے کا پورا خاندان یا گروہ نا مناسب رویے پر ڈٹا ہو۔
اینٹ کو فارسی میں خِشت کہتے ہیں۔ اسی سے اردو ترکیب ’ بھٹا خشت ‘ ہے۔ بھٹے کی ٹیڑھی اینٹ سے متعلق ایک شاعر نے پہلے ہی خبردار کردیا ہے:
خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
یعنی: معمار اگر پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھے گا تو دیوار آسمان تک پہنچ کر بھی ٹیڑھی ہی رہے گی۔
یہ شعر اصلاً کس کا ہے معلوم نہیں۔تاہم فارسی زبان کے بڑے شاعر تائب تبریزی نے اسی خیال کو معمولی ترمیم کے ساتھ پیش کیا ہے:
چون گذارد خشت اول بر زمین معمار کج
گر رساند بر فلک، باشد ھمان دیوار کج
یعنی : معمار نے زمین پر پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھ دی ہے۔ اب اگر دیوار آسمان تک بھی پہنچ جائے تو بھی ٹیڑھی رہے گی۔
سچی بات تو یہ ہے کہ تائب نے لفظوں کی جزوی ہیر پھیر کے سوا کوئی کمال نہیں دکھایا۔ تاہم 14 اشعار پر مشتمل اس کی یہ غزل بہت خوبصورت ہے، جسے اس نے ’دستار کج،گفتارکج، منقارکج اور رفتار کج‘ جیسے قوافی سے سجایا ہے۔
