اردو کو گُھٹی میں گھول کر پینے والا شاعر 'رگھوپتی سہائے' ہے، جسے دنیا 'فراق گورکھپوری' کے نام سے جانتی ہے۔ اردو کے آغاز و ارتقاء سے لے کر موجودہ زمانے تک غیر مسلم شاعروں اور نثر نگاروں کی طویل فہرست ہے، جو گیسوئے اردو کو سجانے اور سنوارنے میں شریک رہے ہیں۔
اردو کے اس قافلہِ شوق کے سالاروں میں ایک نام 'پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی' کا بھی ہے۔ کشمیر النسل پنڈت برجموہن ایک معروف ادیب، خوش گو شاعر، ڈرامہ نویس، ناول نگار اور بلند پایہ انشا پرداز کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ آپ کو مولانا الطاف حسین حالی کی شاگردی کا شرف بھی حاصل رہا، یوں میرزاغالب آپ کے دادا استاد قرار پاتے ہیں۔
پنڈت برجموہن نے اردو کے فروغ کے لیے جس جذبے کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل رشک ہی نہیں قابل تقلید بھی ہے۔ اردو نظم و نثر کے حوالے سے آپ کی تحقیق و تصنیف و تالیف دو درجن کتابوں کی صورت میں اہل علم سے خراج تحسین وصول کرچکی ہیں۔
جناب برجموہن نے صرف فروغ اردو کا فریضہ ہی ادا نہیں کیا، بلکہ دفاع اردو کے محاذ پر بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ آپ کی ایک کتاب بعنوان 'ناگزیر قیل و قال (زبان اردو پربعض اعتراضات کا مسکت جواب)' خاص اسی موضوع پر ہے۔
جناب برجموہن کی خوبصورت کتابوں میں سے آج جس کتاب کا تذکرہ و تعارف مطلوب ہے، اس کا نام 'کیفیہ' ہے، یہ کتاب 1942ء میں انجمن ترقی اُردو (ہند) دہلی کے زہر اہتمام شائع ہوئی، اور عوام و خواص میں یکساں مقبول قرار پائی۔
مصنف کے مطابق 'برسوں کی تحقیق، مطالعے اور سوچ بچار کے نتیجے اس کتاب میں محفوظ کردیے گئے ہیں'۔ یہی وجہ ہے کہ 'کیفیہ' کا مطالعہ اردو کی وسعت اور عظمت سکّہ دل پر بٹھا دیتا ہے۔
اس کتاب کے تیسرے باب کا عنوان 'لفظ' ہے۔ اس باب کے تحت جناب برجموہن نے لفظ کے بننے، سنوارنے، بگڑنے اور مرنے سے بحث کی ہے۔
انہوں نے اس بحث میں دکھایا ہے کہ کس طرح ایک ہم صوت یا ہم صورت الفاظ کے معنی میں اختلاف ہوتا ہے اور کس طرح ایک لفظ دو مختلف زبانوں میں دو مختلف معنی دیتا ہے۔ الغرض کتاب کیا ہے معلومات کا بیش بہا خزانہ ہے۔
اس کتاب کا سب سے دلچسپ حصہ وہ جس میں مصنف نے مختلف اسماء، اجتماعات، کیفیات اور خصوصیات کے لیے اردو میں موجود الفاظ بیان کیے ہیں۔ سچ پوچھیں تو اس حصہ میں اردو کی وسعت و ندرت میں عربی زبان کی شان پائی جاتی ہے۔
تاہم کتاب پڑھتے ہوئے خوشی و رنج کے ملے جلے جذبات جنم لیتے ہیں، خوشی اس بات کی کہ اردو نے اپنے دامن میں کتنے قیمتی موتی سمیٹ رکھے ہیں اور افسوس اس بات کا کہ ہم نے ان موتیوں کو مٹی میں رول دیا ہے۔ خیر اردو کا مرثیہ کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں، فی الوقت اردو کی وسعت بیان کا لطف اٹھائیں۔
'خاص جانوروں کے بچوں کے لیے خاص لفظ' کے تحت مصنف لکھتے ہیں، 'میمنا' بکری کا بچہ، 'برّہ' بھیڑ کا بچہ۔ 'پاٹھا' ہاتھی کا بچہ، 'پٹّھا' اُلّو کا بچہ، 'پِلّا' کُتیا کا بچہ، 'بلونگڑہ' بلی کا بچہ، 'بچھیرا (بچھیرا)' گھوڑی کا بچہ، 'کٹڑا(کٹڑی)' بھینس کا بچہ، 'چوزا' مرغی کا بچہ، 'ہرنَوٹا' ہرن کا بچہ، 'سنپولا' سانپ کا بچہ اور 'گھیٹا' سُوَر کا بچہ۔
پھر مختلف اجتماعات کے لیے مختلف نام بھی دلچسپ ہیں مثلاً طلبا کی 'جماعت'، رندوں کا 'حلقہ'، بھیڑوں بکریوں کا 'ریوڑ'، مد مکھیوں کا 'جِھلّڑ'، ستاروں اور عورتوں کا 'جھرمٹ' یا 'جھومر'، آدمیوں کی 'بھیڑ'، جہازوں کا 'بیڑا'، ہاتھیوں کی 'ڈار'، کبوتروں کی 'ٹُکڑی'، چیڑ اور بانسوں کا 'جنگل'، درختوں اور اڑتے پرندوں کا 'جُھنڈ'، اناروں کی 'کُنج'، بدمعاشوں کی 'ٹولی'، سواروں کا 'دستہ'، ٹڈّی کا 'دَل'، انگور کا 'گُچّھا'، کیلوں کی 'گَہَل'، ریشم کا 'لچّھا'، مزدوروں کا 'جتّھا'، فوج کا 'پَرا'، لکڑیوں کا 'گٹّھا'، روٹیوں کی 'تَھئی'، کاغذوں کی 'گڈّی'، خطوں کا 'طومار'، کلابتّوں کی 'گنجی'، بالوں کا 'گُپّھا' اور پان کی 'ڈھولی'۔
اب اردو میں مختلف آوازوں کے لیے موجود الفاظ کا لطف اٹھائیں۔ شیر'دھاڑتا' ہے، ہاتھی 'چنگھاڑتا' ہے، گھوڑا 'ہنہنہاتا' ہے، گدھا 'ہینچوں ہینچوں' کرتا اور 'رینگتا' ہے، کتا 'بھونکتا' ہے، بلی 'میاؤں' کرتی ہے، گائے 'رانبھتی' ہے، سانڈ 'ڈکارتا' ہے، اونٹ 'بَلبَلاتا' اور مستی میں 'بغبغاتا' ہے، بکری 'ممیاتی' ہے، کوئل 'کُوکتی' ہے، چڑیا 'چُوں چُوں' کرتی ہے، کوّا 'کائیں کائیں'کرتا ہے، کبوتر'غٹرغوں' کرتا ہے، مکّھی'بھنبھناتی' ہے، مرغی 'کڑکڑاتی' ہے،اُلو 'ہوکتا' ہے، مور 'چنگھاڑتا' ہے، توتا 'رٹ' لگاتا ہے، مرغا 'ککڑوں کوں' کرتا ہے، پرندے 'چُرچراتے' ہیں، سانپ 'پھنکارتا' ہے، گلہری 'چٹ چٹاتی' ہے، مینڈک 'ٹرّاتا' ہے، جھینگر 'جھنکارتا' ہے، اور بندر 'گھگیاتا' ہے۔
مصنف ہی کے بقول بعض اور چیزیں ایسی ہیں جن کی آوازیں خصوصیت رکھتی ہیں، ان کے لیے جدا جدا لفظ مقرر ہیں، جیسے: بادل کی 'گرج'، بجلی کی 'کڑک'، ہوا کی 'سنسناہٹ'، توپ کی 'دنادن'، صراحی کی 'گٹ گٹ'، گھوڑے (کے چلنے) کی 'ٹاپ'، رُپوں کی 'کھنک'، ریل کی 'گڑگڑ'، گویّوں کی 'تاناری ری'، طبلے کی 'تھاپ'، تنبورے کی 'آس'، گنبد کی 'گونج'، گھڑیال کی 'ٹن ٹن'، چھکڑے کی 'چوں چوں'، چکّی کی 'گھمر' وغیرہ۔
پھر خاص چیزوں کی جوہری کیفیت کے لیے خاص الفاظ ہیں، جیسے موتی کی 'آب'، کُندن کی 'دمک'، ہیرے کی 'ڈلک'، چاندی کی 'چمک'، گھنگرو کی 'چُھن چُھن'، دھوپ کا 'تڑاقا'، بُو کی 'بھبھک'، عطر کی 'لپٹ' اور 'پھول' کی مہک۔
اردو کی اس ذخیرہ الفاظ میں موجود ایسے خوش کُن اور خوبصورت الفاظ دیکھ کر بھوپال (بھارت) کے سندیپ گپتے کا شعر یاد آ گیا جن کا کہنا ہے: