Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی میں قانونی پیچیدگی کیا ہے؟

پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور کے مطابق صوبہ بھر میں سعد رضوی پر 98 مقدمات ہیں۔(فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں کالعدم تنظیم تحریک لبیک (ٹی ایل پی) اور حکومت وقت کے مابین ایک ’خفیہ‘ معاہدہ طے پایا ہے جس کے بعد ٹی ایل پی کے کارکنوں نے وزیر آباد میں جی ٹی روڈ کو ٹریفک کے لیے کھول دیا ہے۔ البتہ وزیر آباد سے واپس جانے انکار کر دیا ہے اور ایک خالی گراؤنڈ میں ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ ان کارکنوں اور رہنماوں کا کہنا ہے کہ جماعت کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی تک ادھر ہی رہیں گے۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خفیہ معاہدے میں حکومت نے ٹی ایل پی کو سعد رضوی کو رہا کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے؟ اور اگر ایسا ہی ہے تو حکومت کو اس وقت کس قانونی پیچیدگی کا سامنا ہے؟
پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور کے مطابق صوبہ بھر میں سعد رضوی پر 98 مقدمات ہیں اور تمام مقدمات میں انسداد دہشت گردی کی دفعات ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اپریل میں سعد رضوی کی گرفتاری کسی مقدمے میں نہیں کی گئی بلکہ ان کو امن وامان میں خلل ڈالنے کے پیش نظر 16 ایم پی او کے تحت حراست میں لیا گیا۔
لاہور ہائی کورٹ نے سعد رضوی کے خاندان کی درخواست پر حکومتی نظربندی کے احکامات معطل کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا تھا البتہ اس عدالتی حکم میں یہ بھی کہا گیا کہ سعد رضوی اگر کسی اور مقدمے میں مطلوب نہیں تو انہیں رہا کر دیا جائے۔
حکومت نے سعد رضوی کو ان کے خلاف درج دیگر 98 مقدمات میں گرفتار کرنے کی بجائے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے ہائی کورٹ کو ہی نظر بندی سے متعلق کیس دوبارہ سننے کا حکم صادر کیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کا دو رکنی بنچ تین اکتوبر سے اس کیس کی دوباری سماعت شروع کر رہا ہے۔

 ان کو امن وامان میں خلل ڈالنے کے پیش نظر 16 ایم پی او کے تحت حراست میں لیا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ایڈووکیٹ احمد پنسوٹا سمجھتے ہیں کہ ایف آئی آرز میں جب تک پولیس سعد رضوی کو باضابطہ طور پر گرفتار نہیں کرتی حکومت کو کسی قسم کی پیچیدگی کا سامنا نہیں ہے۔ ’حکومت نے انہیں کسی مقدمے میں گرفتار کیا ہی نہیں ہوا، وہ تو محض ایک ڈی سی کے حکم نامے کے تحت نظر بند ہیں۔ ہاں اگر ان ایف آئی آرز میں گرفتاری ڈالیں گے تو پیچیدگی ہو گی کیونکہ اس میں پھر ایک مکمل قانونی طریقہ کار فالو کرنا پڑے گا۔ جس میں ریمانڈ اور پھر عدالتی صوابدید پر ضمانت، پھر حکومت کے اپنے بس کا کام نہیں ہوتا۔‘
تو ایسے میں سوال ہے کہ حکومت جس قانونی پیچیدگیوں کا ذکر کر رہی ہے وہ قانونی عمل ابھی تک شروع ہی کیوں نہیں کیا جاسکا؟
ترجمان پنجاب حکومت حسان خاور کے مطابق ’حکومت کی ایک قانونی ٹیم اس سارے معاملے کو دیکھ رہی ہے۔ ان ساری جزیات پر بھی مشاورت جاری ہے۔ فی الحال تو معاملہ ہائی کورٹ میں ہے اس پر زیادہ تبصرہ نہیں کیا جا سکتا۔‘

شیئر: