Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعد رضوی کی نظر بندی کے خلاف درخواست کیسے قابل سماعت ہے: عدالت

جب کیس دوبارہ ہائیکورٹ میں آیا تو نظر بندی کا آرڈر خود بخود ختم ہو چکا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
لاہور ہائیکورٹ نے مذہبی کالعدم تنظیم تحریک لیبک کے سربراہ سعد رضوی کے وکیل کی استدعا پر انہیں مہلت دی کہ وہ اس قانونی نکتہ پر مطمئن کریں کہ جب نظربندی کا حکم ہی موثر نہیں رہا تو اس کے خلاف درخواست کیسے قابل سماعت ہوسکتی ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس امیر بھٹی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سعد رضوی کی نظر بندی کے خلاف درخواست پر سماعت کی تو ان کے وکیل میاں پرویز حسین نے بتایا کہ ’حکومت اور تحریک لبیک میں انڈرسٹینڈنگ ہوئی ہے۔ اس کا نتیجہ دیکھنا چاہتے ہیں۔‘
بنچ نے وکیل کو باور کرایا کہ سوال انڈرسٹینڈنگ کا نہیں بلکہ درخواست کے قابل سماعت ہونے کا ہے۔
بنچ نے نشاندہی کی کہ ’اگر ایک حکم ہی موجود نہیں تو پھر اس پر قانونی نکات پر کیسے بحث کی جاسکتی ہے۔ عدالت نے قانونی نکات پر بات کرنی ہے اس کے فلسفے پر نہیں۔‘
سعد رضوی کے وکیل نے بار بار یہ استدعا کی کہ انہیں مہلت دی جائے تاکہ وہ درخواست کے قابل سماعت ہونے کے بارے میں اپنے موقف پیش کریں۔
بنچ نے وکیل کو باور کرایا کہ جو نقاط اب اٹھائے جا رہے ہیں وہ سپریم کورٹ میں کیوں نہیں اٹھائے گئے؟
بنچ نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ نقاط سپریم کورٹ میں اٹھائے جاتے تو اس کا وہیں جواب مل جاتا۔
’جس نظر بندی کے حکم نامے کو اس عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے وہ اب سرے سے موجود ہی نہیں جو چیز موجود ہی نہ ہو اس کو کیسے چیلنج کیا جا سکتا ہے؟ بہتر یہ آپ درخواست واپس لے لیں۔‘
وکیل پرویز حسین نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں ان قانونی نقاط پر تیاری کے لیے وقت دیا جائے۔ عدالت نے ان کی استدعا منظور کرتے ہوئے انہیں کل تک کا وقت دیا ہے کہ وہ اپنی تیاری کر کے آئیں اور سماعت ملتوی کر دی۔

حکومت نے سعد رضوی کو 16 ایم پی او کے تحت تین مہینے کے لیے نظر بند کیا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’عدالت کے استفسار پر اور اپنی قانونی پوزیشن واضع کرنے کے لیے وقت مانگا ہے۔ میں ٹی ایل پی سے مشاورت اور حکومت کی طرف سے بھی مزید اقدامات جاننے کے بعد فیصلہ کروں گا کہ اب ہم نے اس کیس کو کیسے لے کر چلنا ہے۔‘
خیال رہے کہ حکومت نے سعد رضوی کو 16 ایم پی او کے تحت تین مہینے کے لیے نظر بند کیا تھا۔ اس نظر بندی کے خاتمے کے بعد اس نظر میں توسیع کے لیے انہیں ہائیکورٹ کے نظر ثانی بورڈ کے روبرو پیش کیا گیا۔ تاہم بورڈ نے حکومت کی سعد رضوی کو مزید نظربند رکھنے کی درخواست مسترد کر دی۔ جس کے بعد وفاقی نظر ثانی بورڈ میں درخواست دائر کر کے حکومت نے اسے خود ہی واپس لے لی۔
حکومت نے انہیں رہا نہیں کیا جس کے بعد ٹی ایل پی نے ان کی رہائی کے لیے ہائیکورٹ میں پیٹیشن دائر کر دی۔ ہائیکورٹ نے سعد رضوی کو رہا کرنے کا حکم دیا جسے حکومت نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا رہا کرنے کا فیصلہ ختم کرتے ہوئے کیس دوبارہ ہائی کورٹ میں بھیج دیا۔ جسے اب دورکنی بنچ سن رہا ہے۔
تاہم جس وقت پہلے ہائیکورٹ یہ مقدمہ سن رہی تھی اس وقت حکومت کا نظر بندی کا آرڈر فیلڈ میں تھا البتہ جب کیس دوبارہ ہائیکورٹ میں آیا تو وہ آرڈر خود بخود ختم ہو چکا ہے۔

شیئر: