Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان: مزار شریف میں چار سماجی کارکن خواتین کا پراسرار قتل

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے سینکڑوں کارکن افغانستان چھوڑ چکے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
افغانستان کے شہر مزار شریف میں چار سماجی کارکن خواتین کی پراسرار موت واقع ہوئی ہے۔
افغان ویب سائٹ ہشتِ صبح نے مقامی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ چاروں کارکن خواتین کو قتل کر کے ان کی لاشیں مضافاتی علاقے خالد بن ولید میں ایک گڑھے میں پھینکی گئیں۔
چاروں لاشیں جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب ملیں۔
ایک مقتول خاتون کارکن فوروزان صافی کے شوہر محمد صابر بتور سکیورٹی خطرات کے باعث افغانستان چھوڑ کر پڑوسی ملک ایران میں پناہ لے چکے ہیں۔
صابر بتور نے ہشتِ صبح کو بتایا کہ ان کی اہلیہ کو پراسرار انداز میں ہدف بنا کر قتل کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ فوروزان صافی کو تین دیگر خواتین کارکنوں کے ہمراہ بدھ کی سہ پہر نشانہ بنایا گیا۔
مقتولہ کے شوہر کے مطابق ان کی اہلیہ کو بعض افراد نے خود کو انسانی حقوق کے کارکن ظاہر کر کے فون پر ملاقات کے لیے بلایا جس کے چند گھنٹے بعد وہ لاپتہ ہو گئیں۔
صابر بتور نے بتایا کہ ان کی اہلیہ کو دس روز قبل بھی کچھ لوگوں نے فون کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ ان کو تعلق انسانی حقوق کی تنظیموں سے ہے اور وہ سماجی کارکنوں کو افغانستان سے باہر بجھوانے کا انتظام کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میری اہلیہ نے اپنی تعلیمی اسناد اور سفری دستاویزات لے کر آدھی رات کے وقت گھر چھوڑا اور جاتے ہوئے بتایا کہ وہ انسانی حقوق کی ایک تنظیم کی مدد سے خفیہ طریقے سے بیرون ملک جا رہی ہیں۔‘

مزار شریف میں مقامی طالبان حکام نے خواتین کارکنوں کے قتل کے واقعہ پر تبصرہ نہیں کیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

خاندان کے افراد کی جانب سے ان سے فون پر رابطہ کیا گیا تاہم جواب موصول نہ ہونے پر فوروزان صافی کی تلاش شروع کی گئی۔
اہلخانہ کے مطابق ان کو فوروزان صافی کی گولیوں سے چھلنی لاش مزار شریف کے مرکزی ہسپتال میں ملی۔
انہوں نے بتایا کہ نامعلوم افراد خاتون سماجی کارکن کی لاش ہسپتال لے کر پہنچے تھے اور ہسپتال انتظامیہ کے پاس ان کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ مقتولہ کا فون، جیولری، تعلیمی اسناد اور سفری دستاویزات بھی ساتھ لے گئے۔
مقتولہ کے خاندان کے افراد کے مطابق انہوں نے مقامی طالبان حکام کو قتل سے متعلق آگاہ کیا مگر ان کی جانب سے مثبت جواب نہیں ملا۔
ہشتِ صبح کے مطابق ماری جانے والی دیگر تین خواتین کی شناخت تاحال نہیں کی جا سکی۔ اور مقامی طالبان حکام نے بھی ان واقعات پر ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

شیئر: