فارسی میں ’جھاڑو‘ کو ’جارُو‘ کہتے ہیں، جو ’جاروب‘ کی تخفیف ہے۔ (فوٹو: ان سپلیش)
جھاڑو برتن کر کے چھت پر بیٹھ گئی
آخر انساں ہے وہ تھک کر بیٹھ گئی
بدایوں (انڈیا) کے نوخیز شاعر ’احمد عظیم‘ کا یہ شعر کیا ہے محبوب کے سُگھڑاپے کا اشتہار ہے، جس میں بین السطور یہ بھی درج ہے کہ محترمہ امور خانہ داری نمٹاتے ہی چھت پر محض اس لیے جا بیٹھتی ہیں کہ انہیں کوئی اور کام نہ کہہ دیا جائے۔ بہرحال یہ شاعر اور اس کے محبوب کا معاملہ ہے ہم اس میں نہیں پڑتے اور شعر میں آئے لفظ ’جھاڑو‘ کی بات کرتے ہیں۔
یوں تو ’جھاڑو‘ کا عام استعمال کوڑا کرکٹ سے متعلق ہے، تاہم بعض صورتوں میں اس سے چھپکلی بھگانے اور شوہروں کو دھمکانے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ اپنے عام استعمال کی وجہ سے ’جھاڑو‘ اردو کی بہت سی کہاوتوں اور محاوروں کا حصہ ہے، مثلاً مال و اسباب کا لُٹ جانا ’جھاڑو پھرنا‘ ہے تو بُرا بھلا کہنا ’جھاڑو کرنا‘، جب کہ جھڑکی پڑنا ’جھاڑو مارنا‘ ہے۔ پھر دبلے پتلے کو مجازاً ’جھاڑو کی تیلی‘ کہتے ہیں۔ چوں کہ جھاڑو اصلاً ڈوری سے بندھا تیلیوں کا گٹھا ہوتا ہے، سو اس رعایت سے میل ملاپ کا سبب ’جھاڑو بندھن‘ کہلاتا ہے۔
جھاڑو کے عملی اور محاوراتی استعمال کے بعد اب کچھ ذکر ’جھاڑو‘ کے لفظی معنی کا ہو جائے۔ عام خیال کے مطابق ’جھاڑو‘ کی اصل فارسی کا ’جارُو‘ ہے۔ یہ خیال اس لیے بھی تقویت پاتا ہے کہ دونوں الفاظ ہم آواز ہی نہیں ہم معنی بھی ہیں، لیکن اس صوتی مشابہت اور معنوی مماثلت کے باوجود ان دونوں کی اصل ایک دوسرے سے بالکل جدا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فارسی میں ’جھاڑو‘ کو ’جارُو‘ کہتے ہیں، جو ’جاروب‘ کی تخفیف ہے۔ اگر جھاڑو لگانا فارسی میں ’جاروکشی‘ ہے، تو جھاڑو لگانے والا ’جاروب کش‘ کہلاتا ہے۔ دیکھیں لکھنؤ کے ’عاجز ماتوی‘ کیا کہہ رہے ہیں:
کبھی بادِ صبا بن کر کبھی جاروب کش ہو کر
تمنا تھی مسلسل ہم طواف آستاں کرتے
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اگر ’جارو‘ لفظ ’جاروب‘ سے نکلا ہے، تو خود ’جاروب‘ کا کیا مطلب ہے؟ عرض ہے کہ ’جاروب‘ کے اصطلاحی معنی تو ’جھاڑو اور جھاڑن‘ کے ہیں، جہاں تک اس کے لفظی معنی کی بات ہے، تو یہ دو لفظوں ’جا اور رُوب‘ سے مرکب ہے۔
اس میں ’جا‘ کے معنی جگہ اور مکان کے معنی ہیں، جب کہ ’رُوب‘ صفائی کے لیے مخصوص کپڑے کو کہتے ہیں، یوں ’جاروب‘ کو ہم ’جھاڑن‘ کا مترادف کہہ سکتے ہیں، تاہم بعد میں اس کے معنی میں وسعت پیدا ہوئی اور سِینکوں اور تِیلیوں پر مشتمل ’جھاڑو‘ بھی اس کے معنی میں داخل ہو گئی۔
برسبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ لفظ ’جارُوب‘ کا جُزثانی ’رُوب‘ اصلاً لفظ ’رُوبندہ‘ کی تخفیف ہے۔ ’روبندہ‘ دو لفظوں ’رُو‘ بمعنی ’چہرہ‘ اور ’بند‘ بمعنی ’ڈھانپنے‘ سے مرکب ہے۔ یہ اس چہار گوشہ کپڑے کو کہتے ہیں جو بطور نقاب استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم چہرہ ڈھانپنے کی رعایت ’رو بندہ‘ کے معنی میں نقاب کے علاوہ ’برقع‘ بھی داخل ہے۔
جس طرح ہمارے یہاں پرانی بنیان یا ٹی شرٹ وغیرہ کو ’جھاڑن‘ بنا لیتے ہیں، ممکن ہے یہی کچھ ایران میں ’روبندہ‘ کے ساتھ ہوا ہو، اور بعد میں اس لفظ نے ’جا‘ کے اشتراک سے ’جاروب‘ کا روپ دھار لیا ہو۔
جہاں تک بات لفظ ’جھاڑو‘ کی اصل کی ہے، تو اس ’جھاڑو‘ کو ’جھاڑ‘ سے نسبت ہے۔ ’جھاڑ‘ درخت کو کہتے ہیں۔ چوں کہ ’جھاڑو‘ ناریل کی تیلیوں، کھجور کے پتّوں یا کسی بھی دوسرے جھاڑ کے تنکوں اور باریک شاخوں سے تیاری کیا جاتی ہے، اس لیے یہ ’جھاڑ‘ کے تعلق سے ’جھاڑو‘ کہلاتی ہے۔ یہاں اس بات کی تفصیل ضروری نہیں کہ ’جھاڑو‘ سے صفائی کا جو تصور پیدا ہوا اُس نے دھول مٹی صاف کرنے والے کپڑے کو ’جھاڑن‘ کا نام دیا، چوں کہ چیزوں کو بذریعہ جھاڑن جھٹک کر صاف کیا جاتا ہے، اس لیے صفائی کا یہ عمل ’جھاڑنا‘ کہلایا۔
جھاڑو کو اور بھی بہت سے ناموں سے پکارا جاتا ہے، ان میں سے ایک نام ’بُہاری‘ ہے، اس کو آپ ترکیب ’جھاڑو بُہارو‘ میں دیکھ سکتے ہیں، جس کے معنی ’صفائی ستھرائی‘ کے ہیں۔ اب اس ’بُہاری‘ کو ذہن میں رکھیں اور پنجابی لفظ ’باری‘ بمعنی جھاڑو پر غور کریں تو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی یہ ایک ہی لفظ کی دو مختلف صورتیں ہیں۔
دیکھیں بات دو لفظوں کی باہمی مشابہت سے چلی اور کہاں تک پہنچ گئی۔ اب اس قصے کو یہیں تمام کرتے اور ایسے ہی کچھ اور الفاظ کی بات کرتے ہیں۔
غلط ہی سہی مگرکچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اردو فقرہ ’دیکھو رے شان‘ انگریزی زبان میں پہنچ کر ’ڈیکوریشن‘ ہو گیا ہے۔ اس خیال کی نامعقولیت اپنی جگہ مگر لانے والا دور کی کوڑی لایا ہے اور صوتی مماثلت اور یکساں مفہوم سے مغالطے کا سامان کر دیا ہے۔
اس سلسلے کا ایک اور لفظ ’اَنتکال‘ ہے، جس کے معنی ’آخری وقت‘ کے ہیں، اس لفظ کی آواز اور معنی سے دھوکا کھا کہنے والے نے اس ہندی ’انتکال‘ کو عربی ’انتقال‘ کی اصل قرار دینے کی ناکام کوشش کی ہے۔ ناکام کوشش اس لیے کہ ’انتکال‘ اور ’انتقال‘ بظاہر قریب ہوتے ہوئے بھی زبانوں کی دو مختلف دنیاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر مزید آسان الفاظ میں کہیں تو ان دونوں الفاظ کا باہم کوئی تعلق نہیں ہے۔
اب ذرا عربی لفظ ’شاء‘ کو دیکھیں، آپ کہتے ہیں ’ان شاء اللہ‘ اس کے معنی ہیں ’اگر اللہ نے چاہا‘، جب آپ ’ماشاء اللہ‘ کہتے ہیں، تو اس کا مطلب ہوتا ہے اللہ نے کیا خوب چاہا‘۔ اس پس منظر کے ساتھ اب آپ اردو کے ’چاہ‘ پر غور کریں، لفظ چاہا، چاہنا اور چاہت وغیرہ اسی ’چاہ‘ سے نکلے ہیں۔ تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ عربی کا ’شاء‘ اور اردو ’چاہ‘ ایک ہی معنی کے حامل دو مختلف تلفظ ہیں؟ میرا خیال ہے یہ مماثلت بھی اتفاقی ہے۔