بچپن میں سُنے مختلف رنگوں کے ناموں پر برسوں بعد غور کیا تو معلوم ہوا کہ اکثر نام مختلف پھلوں، پھولوں، سبزیوں حتیٰ کہ جانوروں، پرندوں اور حشرات سے نسبت رکھتے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
رنگ لائے گا دیدۂ پُر آب
دیکھنا دیدۂ پُر آب کا رنگ
شعر کے آغاز و اختتام میں آنے والا ’رنگ‘ ہر دو جگہ دو مختلف مفہوم کے ساتھ برتا گیا ہے۔ یوں ریاض خیرآبادی کا یہ شعر سادگی و پُرکاری کی خوبصورت مثال بن گیا ہے۔ بات یہ ہے کہ گل ہو یا گلشن، چادر ہو یا چُنری، ’رنگ‘ جس جا سماتے ہیں اسے ’رنگین‘ بنا دیتے ہیں۔
کہتے ہیں رنگوں کے اس جہان میں کچھ رنگ بنیادی ہیں اور کچھ ثانوی، باقی رنگ انہیں رنگوں کے تال میل سے بنے ہیں۔ اس ’تال میل‘ کی رعایت سے لکھنؤ کے ’بھارت بھوشن پنت‘ آگئے جن کا کہنا ہے:
کبھی گھروں میں سینے پرونے کا رواج عام تھا۔ تب بڑی بوڑھیوں ہی نہیں آپاؤں اور باجیوں کے زبان پر بھی رنگوں کے 'رنگارنگ' نام ہوتے، جن کے ذکر ہی سے رنگینیاں پھوٹتی، بکھرتی اور برستی معلوم ہوتیں۔ پھر یوں ہوا کہ زمانہ بدل گیا۔ رنگوں کے یہ نام پہلے پھیکے پڑے پھر ایسے اُڑے کہ زبانوں پر نایاب اور کتابوں میں کمیاب ہوگئے۔ نتیجتاً یہ نام نسل نو کے درمیان اجنبی قرار پائے۔ المیہ اُن بزرگوں کے ساتھ پیش آیا جو ناموں کی اس پوٹلی کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں اور زبان حال سے کہہ رہے ہیں:
شوکت ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا
بچپن میں سُنے مختلف رنگوں کے ناموں پر برسوں بعد غور کیا تو معلوم ہوا کہ اکثر نام مختلف پھلوں، پھولوں، سبزیوں حتیٰ کہ جانوروں، پرندوں اور حشرات سے نسبت رکھتے ہیں۔ مثلاً پھولوں کی بات کریں تو گلاب سے 'گلابی'، نیلوفر سے 'نیلو فری' اور چمپا سے 'چمپئی' رنگ ہے۔ پھلوں کا بیان ہو تو جامن سے 'جامنی'، بادام سے 'بادامی'، انگور سے 'انگوری'، اور شفتالو سے 'شفتالوی' رنگ ہے۔ واضح رہے کہ 'شفتالو' ایک قسم کا بڑا آڑو ہوتا ہے جسے 'چکیا آڑو' بھی کہتے ہیں۔ چوں کہ انگریزی میں آڑو کو Peach کہتے ہیں، اس لیے اردو کا 'شتالوی رنگ' انگریزی میں Peach color کہلاتا ہے۔
سبزیوں کے تعلق سے رنگ کی بات ہو تو بینگن سے 'بینگنی' اور پیاز سے 'پیازی' رنگ ہے۔ چرند و پرند سے نسبت کا ذکر ہو تو شُتُر(اونٹ) سے 'شُتُری'، 'فاختہ' سے 'فاختئی' اور قِرمِز سے قِرمِزی رنگ ہے۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ 'قِرمِز'، چنے برابر چھوٹا سا سرخ کیڑا ہوتا ہے، جو جھاڑیوں میں پایا جاتا ہے۔ اس سے حاصل ہونے والا رنگ، سرخ ریشم رنگنے کے کام آتا ہے۔
ایک طرف مٹی سے 'مٹیالا' رنگ ہے تو دوسری طرف خاک سے 'خاکی' ہے، اور اس اُڑتی خاک کے مقابل آسمان سے 'آسمانی' رنگ برستا ہے۔ پھر ایک طرح کی سفیدی کو 'دودھیا' کہتے ہیں، صاف ظاہر ہے کہ اسے 'دودھ' سے نسبت ہے۔ یہی 'دودھیا' انگریزی میں Milky white ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ رنگوں کے بیان میں ہماری حیثیت خوشہ چین کی ہے۔ اس باب میں کمال مشتاق احمد یوسفی نے دکھایا ہے اور خوب رنگ جمایا ہے۔ تاہم اس رنگین بیانی سے قبل وہ دُکھی دل کے ساتھ لکھتے ہیں 'افسوس! ہمیں احساس نہیں کہ ہماری ہاں رنگوں کے قدیم اور خوبصورت نام بڑی تیزی سے متروک ہورہے ہیں۔ کل انہیں کون پہچانے گا۔‘ اس کے بعد جناب یوسفی نے درج ذیل نام گنوائے ہیں:
اس کے بعد لکھتے ہیں 'ہم نے اپنے لفظ خزانے پر لات ماری سو ماری، اپنی دھرتی سے پھوٹنے والی دھنک پر بھی خاک ڈال دی۔'
فارسی ہی میں 'رنگ' کے مترادفات میں لفظ 'فام' بھی شامل ہے، جو فارسی کی رعایت سے اردو میں بھی رائج ہے۔ جسے ہم 'گُل رنگ' کہتے ہیں اسی کی دوسری صورت 'گُل فام' ہے۔ پھر گوری چمڑی والا اگر 'سفید فام' کہلاتا ہے تو کالی رنگت والے کو 'سیاہ فام' کہا جاتا ہے۔
'سیاہ فام' کو 'زنجی' بھی کہتے ہیں۔ اس 'زنجی' کو 'زنج' سے نسبت ہے، جو اصلاً فارسی کا 'زنگ' یعنی سیاہ ہے، مگر عربی کے زیر اثر 'زنج' ہوگیا ہے۔ اسی 'زنج' سے مشہور افریقی جزیرہ 'زنجبار' بھی ہے، جس کے معنی 'کالوں کا دیس' ہے۔
لفظ 'زنگ' کے دیگر معنی میں سے ایک نمی کے باعث لوہے کو لگنے والا وہ میل بھی ہے جو بتدریج لوہے کو کھا جاتا ہے۔ اس 'لوہے' کے ذکر سے میر تقی میر یاد آگئے جو کہہ گئے ہیں:
آبلہ دل کا جب کوئی پُھوٹا
فوارہ لوہو کا چُھوٹا
اگر آپ یہ کہیں کہ شعر بالا میں 'لوہا' ناپید ہے، تو آپ درست کہیں گے۔ تاہم گوہر مقصود تک پہنچنے کے لیے آپ کو پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ شعر میں موجود لفظ 'لوہو' آج کا 'لہو' ہے۔ اور ان دونوں کی اصل سنسکرت کا 'لوہ/लोह' ہے۔
یہی'لوہ' دوسو برس پیشتر اردو میں 'لوہو' لکھا جاتا تھا، اسی لیے میر تقی میر اور ان کے ہم عصر شاعروں نے اسی 'لوہو' باندھا ہے۔ تاہم بعد میں یہ املا متروک ہوگیا اور اس کی جگہ 'لہو' نے لے لی۔
یہ عام مشاہدہ ہے کہ لوہو (لہو) سرخ ہوتا ہے، اب اس سرخی کو ذہن میں رکھیں اور غور کریں تو 'لوہا' بھی زنگ لگنے پر 'سرخ' دکھائی دیتا ہے، یوں لہو رنگ ہونے کی نسبت سے 'لوہا' کہلاتا ہے۔
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ زنگ کے اس رنگ کو سرخی ہی کی رعایت سے انگریزی میں red oxide / ریڈ آکسائیڈ کہا جاتا ہے۔لفظ 'زنگ' کی ایک صورت 'زنگار' بھی ہے۔ اب زنگار کی رعایت سے میرزا غالب کا خوبصورت شعر ملاحظہ کریں: