طلبہ کی جبری گمشدگی، بلوچستان کے تعلیمی ادارے بند
بدھ 24 نومبر 2021 14:59
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
زبیر بلوچ کے مطابق کوئٹہ کی تمام یونیورسٹیاں اور کالجز بھی تین دنوں سے بند ہیں (فوٹو بی ایس اے سی)
جامعہ بلوچستان سے دو طلبہ کی مبینہ جبری گمشدگی کے خلاف طلبہ تنظیموں نے احتجاجاً بلوچستان بھر کے تعلیمی ادارے بند کر دیے ہیں۔ کوئٹہ پولیس نے دونوں لاپتہ طلبہ کی گمشدگی سے متعلق اخبارات میں اشتہار شائع کرایا ہے اور عوام سے طلبہ کی تلاش میں مدد کی اپیل کی ہے۔
جامعہ بلوچستان کے شعبہ مطالعہ پاکستان کے طالب علم فصیح بلوچ اور سہیل بلوچ یکم نومبر سے لاپتہ ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی کے تھانہ میں دونوں طلبہ کے اغوا کا مقدمہ درج کیا گیا۔ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور دیگرطلبہ تنظیموں کی جانب سے طلبہ کی عدم بازیابی کے خلاف جامعہ بلوچستان میں دھرنا دے کر احتجاج کیا جارہا ہے۔
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین زبیر بلوچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ بلوچستان یونیورسٹی کے اندر 17 دنوں سے دھرنا جاری ہے۔ احتجاج کے باعث جامعہ کے اندر ہر قسم کی تدریسی سرگرمیاں معطل ہیں اور مختلف شعبوں کے امتحانات بھی ملتوی کر دیے گئے ہیں۔
زبیر بلوچ کے مطابق کوئٹہ کی تمام یونیورسٹیاں اور کالجز بھی تین دنوں سے احتجاجاً بند رکھے گئے ہیں۔
بدھ کو احتجاج کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے ایک دن کے لیے صوبے کے تمام اعلیٰ تعلیمی ادارے بند رکھے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے حکومت کو تین دن کی مہلت دی ہے۔ اگر اس دوران طلبہ بازیاب نہ ہوئے تو پیر سے صوبے کے تمام تعلیمی ادارے مکمل بند کردیے جائیں گے اور مڈل کے امتحانات بھی نہیں ہونے دیں گے۔‘
بی ایس او کے چیئرمین نے کہا کہ صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کی سربراہی میں ٓمذاکراتی کمیٹی اور آئی جی پولیس بلوچستان نے مذاکرات کیے۔
’آئی جی پولیس نے حلفیہ کہا کہ لاپتہ طلبہ پولیس کی تحویل میں نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ طلبہ تنظیموں کو حکومتی بیانات اور مؤقف پر یقین نہیں کیونکہ اس سے قبل بھی کئی طلبہ کو جبری طور پر لاپتہ کرکے طویل عرصہ تک حراست میں رکھا گیا۔