بلوچستان یونیورسٹی کی ہراسیت کا شکار ہونے والی طالبات نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا ہے کہ واقعے کے بعد بڑی تعداد میں طالبات یونیورسٹی چھوڑنے پر مجبور ہیں اور ملوث افراد کو برطرف کر کے سخت سزا دی جائے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس چیئرمین سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کی زیر صدارت ہوا۔
کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ یونیورسٹی سٹاف کی جانب سے ہراسیت اور بلیک میلنگ سے شرمندگی ہوئی ہے۔
طالبات نے کمیٹی کو بتایا کہ ’انہیں خوف میں رکھا جاتا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی چھاؤنی بن چکی ہے۔‘
اجلاس میں بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ و طالبات کو خفیہ کیمروں کے ذریعے ہراساں کرنے کا معاملہ زیرغور آیا۔
یونیورسٹی طالبات نے کمیٹی کو اپنے ساتھ پیش آنے والے سلوک کے بارے میں آگاہ کیا اور مطالبات پیش کیے۔
طالبات نے کہا کہ ’بلوچستان یونیورسٹی میں رونما ہونے والے واقعے سے بلوچستان کی اعلیٰ تعلیم متاثر ہو گی۔ اس سے خواتین تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جائیں گی۔‘
طالبات نے کہا کہ ’ہمیں قلم کا استعمال سکھایا جا رہا ہے یا ڈکیت بنایا جا رہا ہے۔ رکشے والے یونین سازی کا حق رکھتے ہیں مگر بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ تنظیموں کو یونین سازی کا حق نہیں۔ اس سکینڈل میں ایک فرد نہیں پورا سسٹم ملوث ہے۔ ‘
طالبات نے اپنے مطالبات میں کہا کہ ’بلیک میلنگ کرنے والے تمام افراد کو برطرف کر کے سزا دی جائے۔ وائس چانسلر کو عارضی بنیادوں پر ہٹانے کے بجائے مستقل طور پر ہٹا دیا جائے۔ یونیورسٹی میں سکیورٹی کیمروں اور مسلح گارڈز کو داخلی گیٹس تک محدود کیا جائے اور طلبہ یونین کو بحال کیا جائے۔‘
مزید پڑھیں
-
بلوچستان: ہراسیت کی شکایات پر تحقیقاتNode ID: 438081
قائم مقام وائس چانسلر انور پانیزئی نے کمیٹی کو بریفنگ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ 92کیمرے سرویلنس کے مقاصد سے موجود تھے۔ عدالت نے سرویلنس سٹاف سے تفصیلات معلوم کیں تو زائد کیمرے بھی برآمد ہوئے۔ غیر قانونی طور پر بعض کیمرے دروازے کے پیچھے اور سیڑھیوں کے ساتھ لگائے گئے تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’دو ٹوک الفاظ میں کہہ رہا ہوں کہ واش رومز میں سے ایک بھی کیمرا برآمد نہیں ہوا۔ چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تمام تر تفصیلات طلب کر چکے ہیں۔ ایف آئی اے اور عدالتی رپورٹ میں سب کچھ معلوم ہو گا۔‘
سینیٹر طاہر بزنجو نے سوال کیا کہ ’کیمرے کس کے کہنے پر لگائے گئے؟ زیر تفتیش کس کو لایا گیا؟ کسی کو زیر تفتیش لانا ہے تو سب سے پہلے وی سی سے تفتیش ہونا چاہیے تھی کیونکہ جب جنگ جیتتے ہیں تو سب سے پہلے اس کمانڈر کو تمغے لگائے جاتے ہیں جس نے ایک بھی فائر نہ کیا ہو۔‘
سینیٹر جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ ’معطل وی سی کے بارے میں اور بھی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔ خواتین اساتذہ کی ٹیم کی مدد سے بچیوں کو بار بار فیل کیا جاتا رہا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی کی طالبات کو کافی عرصے سے تنگ کیا جا رہا ہے۔ یونیورسٹی کو ایف سی کیمپ میں تبدیل کیا گیا ہے۔‘
چیئرپرسن نیشنل کمیشن فار سٹیٹس آف ویمن خاور ممتاز نے اپنی بریفنگ میں کمیٹی کو بتایا کہ یہ صورت حال کمیشن کے لیے تشویش ناک ہے۔ ہراسیت کے بارے میں ایچ ای سی کے سامنے معاملہ اٹھایا ہے۔ ایچ ای سی اس حوالے سے پالیسی بنا رہا ہے۔ ہراسیت کے پورے قانون پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں