سعودی عرب کی کاوشیں قابل تحسین ہیں ، اس نے مستقبل کی پیش بندی کی خاطر اسلامی اتحادی فوج کے قیام کا ڈول ڈالاہے
محمد مبشر انوار
موجودہ عالمی منظر نامے میں ،امن عالم کو درپیش خطرات کے حوالے سے جو تاثر پیش کیا جارہا ہے، اس کے مطابق بالعموم یہ خطرات براہ راست مسلم ممالک میں جاری شورشوں اور دہشت گردی سے متصل ہیں جبکہ غیر مسلم ممالک بظاہر اس آگ کو بجھانے کی کوششوں میں مصروف تو نظر آتے ہیں لیکن در حقیقت ان کی ساری کاوشیں اس آگ کو بھڑکانے میں جلتی پر تیل کا کام کرتی ہیں۔ مفادات کی اس دنیا میں ’’جیو اور جینے دو‘‘ کی پالیسی کہیں نظر نہیں آتی بلکہ مفادات کے حصول اور اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کی خاطر کسی بھی قسم کے اخلاقی اصول عملی میدان میں نظر نہیں آتے اور جہاں بھی مفادات سے ٹکراؤ ہو،بے اصولی فتح پاتی نظر آتی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر ایسے حالات پیدا کئے جاتے ہیں کہ کمزور یا مستحکم ممالک کو بات تسلیم کرتے ہی بنتی ہے وگرنہ ان کے لئے حیات تنگ کر دی جاتی ہے ،نتیجتاً ان کی ترقی و معاشی نمو کی رفتار معکوس سفر اختیار کر لیتی ہے۔ مفادات کے حصول کی خاطر غیر مسلم طاقتیں کیا کیا غیر اخلاقی حرکتیں کرتی ہیں،اس کی سادہ سی مثال ’’عرب سپرنگ‘‘کے نام سے جاری مشرق وسطیٰ میں اس کی کارروائیاں ہیں کہ کس طرح جمہوریت و عوامی بہبود کی آڑ میں حکومتوں کے خلاف شورشیں برپا کر کے پر امن معاشروں کو آگ کے شعلوں کی نذر کر دیا گیا ہے۔اس کے نتیجے میں مستحکم یا مستحکم ہوتی ہوئی ریاستیں کس طرح باہم پیکار ہیں، سب کے سامنے ہیں۔ علاوہ ازیں جہاں یہ طریقہ واردات کامیاب ہوتا نظر نہیں آتاوہاں حکمت عملی بدل لی جاتی ہے،ریاستوں کی حیثیت، مقام و مرتبے کو تبدیل کر دیا جاتا ہے،کل کے حریف،حلیف بن جاتے ہیں اور حریفوں کو نہ صرف ٹھینگا دکھایا جاتا ہے بلکہ ان سے تعلقات میں غیر محسوس روکھا پن،اجنبیت برتی جاتی ہے۔انہیں احساس دلایا جاتا ہے کہ ان کا کام ختم اور ان کی جتنی ضرورت تھی،جتنا کردار تھا ان سے استفادہ کر لیا گیا۔ درحقیقت آج کی مادی دنیا میں یہی وہ رویہ ہے جس نے اخلاقی اقدار کا جنازہ بری طرح سے نکال دیا ہے۔ تعلقات میں شرم و حیا ،اصول سب عنقا ہو چکے ،باقی بچا تو صرف مفاد جس کی خاطر کسی کی بھی گردن ،کیسے بھی حالات میں جائز اور حق فائق ٹھہری ہے۔مسالک کے نام پر مسلم ریاستوں میں جو کھیل کھیلا جا رہا ہے،جو پراکسی وارزا سٹیج کی جا رہی ہیں، اس کے نتیجے میں مسلم اتحاد تو پارہ پارہ ہو ہی رہا ہے لیکن اس کے اثرات جلد یا بدیر ان ممالک تک بھی پہنچیں گے گو کہ ان ممالک کی باشعور عوام،ان ممالک میں رہائش پذیرمسلمانوں کے طرز عمل اور کردار سے اس پراپیگنڈے سے نکل رہی ہے اور تسلیم کر رہی ہے کہ مسلمان امن پسند قوم ہیں جس کا بین ثبوت موجودہ امریکی صدر کے ان اقدامات کی مخالفت اور مسلمانوں کے حق میں مظاہرے،مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی کے لئے تحفظ کی فراہمی جیسے اقدامات ہیں۔تہذیبوں کی جنگ بپا کرنے والوں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں اور ان کے لئے تنبیہ ہے کہ تہذیب کے اس موجودہ دور میں ایسی دقیانوسی باتوں اور اقدامات سے باز رہا جائے۔
دوسری طرف مسلم ممالک جہاںانفرادی حیثیت میں ان شورشوں سے نپٹنے کی اپنی اپنی سعی کر رہے ہیں، وہیں آج کی خود ساختہ مہذب طاقتیں مسلسل اپنی کوششوں میں مصروف ہیں کہ کسی بھی طرح ان ممالک کے درمیان کھڑی دیواریں گرنے نہ پائیں،اختلافات ختم نہ ہو نے پائیں،مسلم ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے حائل خلیجوں کو پاٹ نہ سکیںاور اس مقصد کی خاطر طرفین میں بد گمانیوں ، غلط فہمیوں کو پروان چڑھانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جا رہی۔ پاکستان اپنے داخلی محاذ پر مسلسل دہشت گردوں کی سرکوبی کر رہا ہے لیکن کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جو ان کاوشوں کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھ سکتے اور عالمی امن کے خودساختہ ٹھیکیداروں کی نظریں اس طرف سے مسلسل بند ہیںجو اس آگ کو دامے درمے سخنے بڑھانے میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔زور ہے تو اس بات پر کہ اس آگ کو بجھانا صرف پاکستان کی ذمہ داری ہے،اس آگ پر تیل پھینکنے والے اس سے مبرا ہیںکہ مقصد فقط اتنا ہے کہ پاکستان کے وسائل اس آگ کو بجھانے میں صرف ہوں نہ کہ تعمیر و ترقی میں۔ علاوہ ازیں مسلم ممالک میں بھی یہ شعور بیدار ہوتا نظر آ رہا ہے کہ کسی طرح باہمی معاملات کو حل کیا جائے اور مسلم ممالک میں اندرون خانہ جو شورشیں ہیں ان کو نہ صرف دبایا جائے بلکہ ان کا مستقل حل تلاش کیا جائے۔ اس ضمن میں سعودی عرب کی کاوشیں نہ صرف قابل تحسین ہیں بلکہ قابل تقلید بھی ہیں کہ اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مستقبل کی پیش بندی کی خاطر اسلامی اتحادی فوج کے قیام کا جو ڈول ڈالا گیا ہے۔امید کی جانی چاہئے کہ دیگر مسلم ممالک بھی اس نیک مقصد کے حصول میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں گے۔
اس وقت جو کچھ بھی مسلم ممالک میں ہورہا ہے،جس کی تفصیل اوپر لکھی ہے،اگر تمام مسلم ممالک اس اتحاد میں شریک ہو جائیں تو کم ازکم یہ امر باعث اطمینان ہوگا کہ ان کے د رمیان پائی جانے والی یا پید اکی جانے والی غلط فہمیوں اور بد گمانیوں کا علاج ممکن ہو سکے گا۔ مسلم ممالک کے داخلی انتشار کا سد باب ہی ممکن نہیں ہو گا بلکہ ان ممالک کی تعمیر و ترقی کے لئے نئی راہیں بھی کھل سکتی ہیںجبکہ دوسری طرف امن عالم کے خود ساختہ ٹھیکیداروں کو بھی یہ سوچنا ہو گا(اگر وہ امن عالم کے لئے مخلص ہیں) تو انہیں اس کی عملی حمایت کرنی ہو گی ۔ اس وقت بھی امن عالم کے لئے عالمی طاقتوں کا کردار انتہائی دہرا اور مشکوک ہے کہ ایک جگہ وہ انتہا پسندی کی اعانت کرتے ہیں اور دوسری طرف اس کو کچلنے کی باتیں بھی کرتے ہیں۔ اگر عالمی طاقتیں حقیقتاً امن عالم کے لئے سنجیدہ ہیں تو انہیں اسلامی اتحادی فوج کی عملی حمایت کرنی ہو گی، اس کے برعکس لائحہ عمل کی صورت میں ہمیشہ کی طرح یہ سوال رہے گا کہ کیا برف پگھلے گی؟