Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سری لنکا ہمیں آنکھیں عطیہ کرتا ہے مگر ہم پھر بھی اندھے ہو گئے‘

سیالکوٹ میں قتل کیے گئے سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کا تابوت کولمبو ایئرپورٹ پر اتارا جا رہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
سری لنکا دنیا میں آنکھوں کا عطیہ کرنے کے لیے مشہور ہے اور ہر سال متعدد ملکوں کے ہزاروں نابینا افراد کو آنکھوں کے ٹشوز یا قرنیا کے عطیات بھیجتا ہے۔
سری لنکا سے آنکھوں کے عطیات حاصل کرنے والا سب سے بڑا ملک پاکستان ہے جہاں سالانہ دو ہزار کے لگ بھگ نابینا افراد کو عطیے میں حاصل ہونے والے قرنیا سے بینائی ملتی ہے۔
سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں سری لنکن مینیجر پریانتھا کمارا کے قتل کے بعد پاکستانی شہری سری لنکا کے شہریوں کی جانب سے بھیجے جانے والے آنکھوں کے عطیے کو بھی زیرِبحث لا رہے ہیں۔
پاکستان میں سری لنکا آئی ڈونیشن سوسائٹی کے رکن ڈاکٹر نیاز بروہی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صرف کراچی میں 30 ہزار افراد کو سری لنکا سے بھیجے گئے آنکھوں کے عطیات ٹرانسپلانٹ کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیالکوٹ سانحے کے دوسرے دن ہی سری لنکا آئی ڈونیشن سوسائٹی کے صدر کو واقعے پر تعزیتی خط ای میل کیا تھا جس پر ان کا فون آیا۔
ڈاکٹر نیاز بروہی نے بتایا کہ سری لنکا آئی ڈونیشن سوسائٹی کے صدر نے کہا کہ ’جو کچھ ہوا اس پر صدمے میں ہیں اور آپ کے اس حوالے سے تعزیتی پیغام میں تشویش سے دلجوئی ہوئی۔ ہم پاکستان کے لوگوں کی خدمت پہلے کی طرح جاری رکھیں گے کیونکہ پاکستان اور سری لنکا کی دوستی بہت مضبوط ہے۔‘
سری لنکا آئی ڈونیشن سوسائٹی کے ذریعے اکھٹے کیے گئے آنکھوں کے عطیات پاکستان کی مختلف غیر سرکاری تنظیموں اور ہسپتالوں تک پہنچائے جاتے ہیں۔
پاکستان میں سری لنکا سے پہلی بار آنکھوں کا عطیہ سنہ 1967 میں موصول ہوا تھا۔ تب سے اب تک پاکستان کو سری لنکا سے آنکھوں کے 35 ہزار کے لگ بھگ عطیات ملے ہیں۔
پاکستان میں قرنیا کا پہلا ٹرانسپلانٹ کراچی کے سپنسر آئی ہسپتال میں ڈاکٹر ایم ایچ رضوی نے کیا جس میں سری لنکا سے ملے آنکھ کے عطیے کا استعمال کیا گیا۔
ڈاکٹر نیاز بروہی کے مطابق جو کچھ سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کے ساتھ کیا گیا اس کا وہاں پاکستان کے لیے آنکھوں کے عطیات بھیجنے والوں پر اثر تو پڑے گا۔ ’وہ دنیا کے 160 شہروں کو قرنیا عطیہ کرتے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ پاکستان کے شہر کراچی کو ملتے ہیں۔‘

پریانتھا کمارا کے قتل میں ملوث ملزمان کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی

راولپنڈی کے الشفا آئی ٹرسٹ ہسپتال میں ماہانہ 50 قرنیا ٹرانسپلانٹ ہوتے ہیں جن میں سے زیادہ تر مریضوں کو سری لنکا سے عطیہ کی گئی آنکھیں لگائی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر بروہی نے بتایا کہ سری لنکا نے دنیا کو اب تک 83 ہزار سے زائد قرنیا عطیہ کیے ہیں جن میں سے 40 فیصد پاکستان کو ملے۔
سوشل میڈیا پر کئی سینیئر صحافیوں اور معروف شخصیات نے سیالکوٹ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے سری لنکا سے پاکستان کے اس تعلق پر بھی بات کی۔
صحافی عامر متین نے ٹویٹ کیا کہ ’سری لنکا صرف ہمارے خطے نہیں بلکہ پوری دنیا میں نابینا افراد سے ہمدری رکھنے والا ملک ہے۔ ہم دنیا کو آنکھیں عطیہ کرنے پر سری لنکن شہریوں کا احترام کرتے ہیں۔ آئیے سری لنکا سے عطیے میں ملی آنکھوں سے دیکھیں اور اپنے معاشرے کو پُرامن بنائیں۔‘
ڈاکٹر ایم سہیل کریم ہاشمی نے لکھا کہ ’سری لنکا قرنیا عطیہ کرتا ہے تاکہ پاکستان میں نابینا پن کا خاتمہ ہو سکے لیکن ہم ابھی تک اندھے ہیں۔‘

سری لنکا آنکھیں عطیہ کرنے والا بڑا ملک کیسے بنا؟

دہائیوں قبل سری لنکا میں صرف ان افراد کی آنکھوں کو نکال کر عطیہ کی جاتی تھیں جن کو سزائے موت سنائی جاتی تھی۔
سنہ 1958 میں اُس وقت کے ایک نوجوان ڈاکٹر ہڈسن سلوا نے نابینا افراد کی مدد کرنے کا سوچا اور اخبار میں ایک مضمون کے ذریعے آنکھوں کے عطیات دینے کی اپیل کی۔

پاکستان میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کے کارکن پریانتھا کمارا کے قتل کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

اس اپیل کے جواب میں سری لنکن شہریوں کا ردعمل ڈاکٹر سلوا کی توقعات سے بڑھ کر تھا۔ وہ سری لنکا میں آنکھوں کے عطیات کو متعارف کرانے کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔
سری لنکا میں بعد از مرگ آنکھیں عطیہ کرنا ایک قومی عادت بنی تو سنہ 1961 میں ڈاکٹر ہڈسن سلوا نے سری لنکا آئی ڈونیشن فاؤنڈیشن سوسائٹی کی بنیاد رکھی۔
اس سوسائٹی نے سنہ 1964 اپنی بین الاقوامی خدمات کا آغاز کیا اور پہلا عطیہ چھ قرنیا سنگاپور کو بھیجے گئے۔

شیئر: