Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منی بجٹ کابینہ سے منظور، اتحادیوں کی ناراضگی حکومت کے لیے ’چیلنج‘

وزیراعظم آج اتحادی جماعتوں اور تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کریں گے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ایک بار پھر منی بجٹ پاس کرانے کے لیے اپنی اتحادی جماعتوں کو منانے میں مصروف ہے جبکہ مسلم لیگ ق اور متحدہ قومی موومنٹ منی بجٹ کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں۔
جمعرات کو وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اپنی ٹویٹ میں بتایا کہ وفاقی کابینہ نے منی بجٹ کی منظوری دے دی ہے ۔اب یہ بل قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔ توقع ہے کہ پارلیمنٹ ہاؤس میں وزیراعظم عمران خان اتحادی جماعتوں اور تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی بھی صدارت کریں گے جس کے بعد اسے قومی اسمبلی میں پیش کر دیا جائے گا۔
پاکستان میں عموماً بجٹ کا سیزن آتے ہی اسلام آباد کے طاقتور ایوانوں اور پارلیمنٹ کے کمیٹی رومز میں ملاقاتوں، ظہرانوں اور عشائیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور حکومت اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ ساتھ اپنے ہی پچھلی نشستوں پر بیٹھنے والے اراکین اسمبلی کو راضی کرنے میں مصروف ہو جاتی ہے۔
پارلیمنٹ میں عددی پوزیشن دیکھی جائے تو حکومت کے پاس 156 نشستیں ہیں اور اتحادیوں کو ملا کر  180 کے قریب نشستیں حکمران اتحاد کے پاس موجود ہیں جبکہ اپوزیشن کو 162 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
اس وجہ سے حکومت کے لیے منی بجٹ پاس کرنے کے لیے درکار 172 ارکان کی سادہ اکثریت حاصل کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے، تاہم ہر بار کی طرح اس بار بھی حکومت کو سب سے بڑا خدشہ اتحادیوں کی طرف سے حمایت نہ ملنے کا ہے۔
یاد رہے کہ آئین کے مطابق بجٹ سیشن میں حکومتی ارکان اسمبلی کے لیے لازم ہوتا ہے کہ وہ موجود ہوں اور حکومت کو ووٹ دیں تاہم بیماری وغیرہ کا عذر بنا کر غیر حاضر رہنا ناممکن نہیں، اس لیے حکومت اس ڈر سے اپنے ارکان کو خوش ہی رکھنے کو ترجیح دیتی ہے۔
دوسری طرف اتحادی جماعتوں پر ایسی کوئی پابندی بھی نہیں ہوتی، اس لیے ہر حکومت بجٹ سیشن میں اتحادیوں کو ضرور ساتھ رکھتی ہے۔

پی ٹی آئی کے  بجٹ سے قبل اتحادیوں کے مطالبات کی تاریخ

وہ بجٹ ہی کیا جب حکومت کے اتحادی اس سے ناراضگی کا اظہار کر کے کچھ مطالبات نہ منوائیں۔ پی ٹی آئی کو اس کا پہلا تجربہ جون 2019 میں ہوا، جب عمران خان کی جماعت نے اپنا پہلا بجٹ تیار کیا۔ بجٹ کی منظوری سے قبل پارٹی کے بڑے اتحادیوں نے حکومت کے لیے خاصی مشکلات کھڑی کر دیں۔
پی ٹی آئی کے پاس اپنی سادہ  اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے  وزیراعظم عمران خان کو ذاتی طور پر اتحادی جماعتوں کے اراکین اسمبلی سے ملاقات کرکے ان کے مطالبات تسلیم کرنا پڑے۔

حکومتی ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ آج (جمعرات کو)  منی بجٹ کی منظوری دے گی (فوٹو: اے ایف پی)

مقامی میڈیا کے مطابق اس وقت وزیراعظم عمران خان نے اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملنے اور ان کے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
وزیر اعظم کا موقف تھا کہ ملک معاشی طور پر ایک گھمبیر صورت حال سے گزر رہا ہے اور اتحادی جماعتوں کے مطالبات پورے کرنا ناممکن ہے، تاہم اکثریت نہ ہونے سے اتحادی جماعتیں ان کو بلیک میل کررہی ہیں جو کسی صورت قبول نہیں ہے۔
تاہم پارٹی کے سینیئر رہنماؤں نے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے انہیں اتحادی جماعتوں کے مطالبات تسلیم کرنے پر آمادہ کیا۔ اس بجٹ سے قبل حکومتی اتحادی ایم کیو ایم نے کراچی اور حیدر آباد کے لیے اربوں روپے مانگے  جو مل گئے۔
اسی طرح وزیر اعظم عمران خان  سے ملاقات میں مسلم لیگ (ق)  کے  چوہدری شجاعت حسین ، چوہدری پرویزٰالٰہی اور مونس الٰہی نے ترقیاتی منصوبوں کے نام پر اربوں روپے کے مطالبات کے ساتھ ساتھ مونس الٰہی کو وفاقی کابینہ میں شامل کرنے پر اصرار کیا۔ ترقیاتی منصوبوں کا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا مگر مونس الہی کو کابینہ میں اس وقت شامل نہیں کیا گیا تھا تاہم اس سال بجٹ منظوری کے بعد مونس الہی کو کابینہ میں شامل کر لیا گیا ہے۔
 اسی طرح 2019 میں تیسری اتحادی جماعت کے سربراہ اختر مینگل نے بھی وزیر اعظم سے ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے دیگر مطالبات کے ساتھ ساتھ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر دس ارب روپے کے مطالبات پیش کئے تھے جسے وزیر اعظم کو منظور کرنا پڑے ۔
اسی طرح سن 2020 میں ووسرے بجٹ سے قبل بھی اتحادیوں نے پی ٹی آئی حکومت کے سامنے مطالبات رکھ دئیے جن میں سے اکثر وزیراعظم عمران خان کو ماننے پڑے۔تاہم اسی سال بجٹ سیزن کے دوران ہی بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل) کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل نے وفاقی حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔

پارلیمنٹ میں حکومت کے پاس 156 نشستیں ہیں اور اتحادیوں کو ملا کر  180 کے قریب نشستیں حکمران اتحاد کے پاس موجود ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

اس طرح اس سال بجٹ سے قبل وزیراعظم کو  کراچی جا کر متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیو ایم) اور جی ڈی اے کے ارکان کو راضی کرنا پڑا۔ مقامی میڈیا کے مطابق ملاقات کے دوران صوبہ سندھ اور بالخصوص کراچی کے مسائل، ترقیاتی ضروریات، آئندہ بجٹ کے حوالے سے ترقیاتی منصوبوں اور دونوں جماعتوں کے درمیان سیاسی اتحاد کے امور پر بات چیت کی گئی۔
اس سے قبل جہانگیر ترین کے خلاف شوگر سکینڈل پر تحقیقات شروع ہوئیں تو قومی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں ترین گروپ سامنے آگیا تھا جس کے بعد حکومتی ارکان کی دوڑیں لگ گئی تھیں اور جیسے تیسے وزرا اور دیگر اعلی عہدیدروں نے ترین گروپ کے اہم ممبران سے ملاقات کر کے انہیں بجٹ میں حمایت پر راضی کیا تھا

بجٹ سیشن میں حکومت کیوں مجبور ہوتی ہے؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکومت کی ایسی کیا مجبوری ہوتی ہے کہ بجٹ سے قبل اتحادیوں کی رضا حاصل کرنے میں جت جاتی ہے اور اتحادی بھی اس  موقع پر مطالبات کی فہرست حکومت کے حوالے کیوں کرتے ہیں؟

اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سینئیر تجزیہ کار پروفیسر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ بجٹ پاس کرانا حکومت کے لیے ایسے ہوتا ہے جیسے نئے سرے سے حکومت تشکیل دینا۔ یہ خطرہ خاص طور پر کمزور عددی اکثریت والی حکومتوں کو زیادہ ہوتا ہے کہ شاید بجٹ پاس نہ کروا سکیں۔ اگر حکومت بحٹ پاس نہ کروا سکے تو وہ پھر سنبھل نہیں سکتی ۔اس لیے جب حکومت کے پاس اپنی اکثریت نہ ہو اور اتحادی حکومت بنائے تو اسے چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو راضی رکھنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں کراچی سے ایم کیو ایم اور بلوچ قوم پرست جماعتیں تقریبا ہر بجٹ سے قبل سیاسی مطالبات پیش کر دیتے تھے جو کبھی پورے ہو جاتے اور کبھی نہیں ہوتے۔

مسلم لیگ ق اور متحدہ قومی مومنٹ منی بجٹ کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ جمہوریت نہیں دھڑے بندی اور گروہی مفادات کی سیاست ہے۔ اسی طرح بجٹ سے قبل اپنی جماعت کے ایم این ایز یا ایم پی ایز کو ترقیاتی فنڈ بھی دیے جاتے ہیں حالانکہ وزیراعظم عمران خان کا منشور تھا کہ اقتدار میں آ کر وہ اس فنڈ کو ختم کر دیں گے تاہم چونکہ وزیراعظم پارلیمانی نظام میں اکثریت سے ہی بنتا ہے تو اسے ارکان کی بات ماننا پڑتی ہے۔
مصنف اور تجزیہ کار ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق بجٹ اجلاس کے دوران سیاسی بلیک میلنگ شروع ہو جاتی ہے کیونکہ اگر اتحادی اگر اس دوران اپنی حمایت ختم کر دیں تو حکومت مشکل میں پڑ جائے گی اور بجٹ منظور نہ ہو تو حکومت قائم نہیں رہتی۔ اسی وجہ سے حکومت عام طور پر مطالبات مان جایا کرتی ہے۔ کچھ جماعتیں ایسا ہر سال کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کے پاس آپشن ہوتا ہے کہ وہ سٹینڈ لے اور بلیک میل نہ ہو تاہم ہماری سیاسی جماعتیں اتنی مضبوط نہیں ان میں اپنی خامیاں ہیں۔

شیئر: