پاکستان میں جون کا مہینہ شروع ہوتے ہی ہر طرف بجٹ بجٹ کا شور برپا ہوتا ہے۔ حکومت کی جانب سے عوامی بجٹ پیش کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں تو اپوزیشن ہمیشہ ہی بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے الفاظ کا گورکھ دھندہ قرار دیتی ہے۔
اب کی بار بجٹ پر شور اس وجہ سے بھی زیادہ سنائی دے رہا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں تو کمی واقع نہیں ہو رہی تاہم حکومت نے مئی کے آخری ہفتے میں معاشی ترقی کی شرح تقریباً چار فیصد رہنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اپوزیشن اس دعوے کو جھٹلا رہی ہے۔
حال ہی میں مسلم لیگ ن نے ایک پری بجٹ سیمینار کا انعقاد کیا جس میں اس کی پوری ٹیم نے حکومتی معاشی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے اعداد و شمار پر سوالیہ نشان موجود ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
دفاعی اخراجات میں کٹوتی کے فیصلے کو سراہتے ہیں: عمرانNode ID: 422052
-
بجٹ میں تمام اداروں کے اخراجات میں کمی کی جائے گی، مشیر اطلاعاتNode ID: 422336
-
وفاقی بجٹ کو سوشل میڈیا پر کتنے نمبرز؟Node ID: 484816
گزشتہ بجٹ پر کیا ہوا؟
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور اپوزیشن کے ارکان میں تعداد کا فرق کم ہونے کی وجہ سے ہر سال بجٹ سے قبل یہ تاثر ابھرتا ہے کہ کہیں ملکی تاریخ میں پہلی بار حکومت کو بجٹ منظوری میں ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے جس کا پارلیمانی زبان میں مطلب عدم اعتماد کہلاتا ہے اور حکومت ٹوٹ جاتی ہے۔
گذشتہ سال بھی بجٹ اجلاس سے پہلے اس تاثر کو بہت تقویت دی گئی کہ ملکی معاشی صورت حال کے باعث تحریک انصاف کی حکومت بجٹ منظور نہیں کروا سکے گی۔
اجلاس سے چند روز قبل کورونا کی صورت حال کے پیش نظر ورچوئل اجلاس کی تجویز سامنے آئی تو قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ ’حکومت کو معلوم ہے کہ وہ بجٹ پاس نہیں کروا سکے گی اس لیے ورچوئل اجلاس بلا کر بجٹ پاس کروانا چاہتی ہے۔ اپوزیشن اس کی اجازت نہیں دے گی۔‘
تاہم بجٹ اجلاس سے چند دن قبل 25 فیصد حاضری کے ساتھ بجٹ سیشن بلانے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے ہوگیا۔ یہ بھی محض اتفاق تھا کہ بجٹ سے پہلے ہی قائد حزب اختلاف شہباز شریف سمیت متعدد حکومتی اور اپوزیشن ارکان قومی اسمبلی کورونا کا شکار ہوگئے۔
شہباز شریف پورے بجٹ اجلاس سے غیر حاضر رہے اور پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار اپوزیشن لیڈر نے بجٹ پر بحث کا آغاز نہ کیا۔
اب بھی اپنی رہائی اور بیرون ملک روانگی میں ناکامی کے بعد سے مسلم لیگ ن کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف گذشتہ دنوں میں متعدد مرتبہ پارلیمانی اپوزیشن کو بجٹ ناکام بنانے کی دعوت دیتے نظر آئے ہیں۔
موجودہ صورت حال میں ایسا ممکن ہے یا نہیں اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ’اس وقت دونوں جماعتوں کے درمیان اعتماد کا شدید فقدان ہے۔‘
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے بتایا کہ ’گذشتہ سال مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے بجٹ ناکام بنانے کے حوالے سے اتفاق کیا لیکن جب بجٹ منظوری کا مرحلہ آیا تو مسلم لیگ ن کی اعلیٰ پارلیمانی قیادت غائب ہوگئی جس وجہ سے حکومت نے آسانی سے بجٹ پاس کرا لیا۔‘
پی پی پی رہنما کے مطابق ’بجٹ منظوری روکنے کے لیے بلاول بھٹو زرداری نے تین مرتبہ شہباز شریف سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھیں کامیابی حاصل نہ ہوئی۔‘
پیپلز پارٹی کے رہنما کے اس دعوے کی مسلم لیگ ن کی جانب سے کوئی تردید یا تصدیق تو نہیں ہو سکی البتہ گذشتہ سال بجٹ منظوری کے فوراً بعد وفاقی وزیر اسد عمر کی یہ ٹویٹ پوری کہانی بیان کر رہی ہے۔
پچھلے کئی دن سے اپوزیشن کی کیے جانے والے بلند دعوے، کچھ میڈیا کےسنسنی خیز تجزیے اور نتیجہ یہ نکلا کے پچھلے سال کے بجٹ کی حکومت کی 29 ووٹ کی اکثریت اس سال بڑھ کر 41 ہو گئی. تمام ساتھیوں اور خصوصی طور پر تحریک انصاف کے ورکرز کو مبارک.
— Asad Umar (@Asad_Umar) June 29, 2020