Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سولر پینلز پر ٹیکس کی تجویز، پاکستان میں گرین انرجی کا مستقبل کیا؟

پاکستان کے بڑے شہروں میں کئی شاہراؤں پر لائٹس کے لیے سولر پینل لگائے گئے ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی پی
پاکستان میں تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے کیے گئے معاہدے کے تحت مختلف شعبوں کو دی گئی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کے لیے منی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے۔
پیش کیے گئے منی بجٹ پر عوام کے نمائندوں نے ابھی پارلیمان میں بحث کرنی ہے تاہم اس میں کئی ایسے شعبوں پر ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جو گزشتہ چند برسوں میں ترقی کرتے دیکھے گئے۔
ان شعبوں میں سے ایک قابل تجدید یا رینیوایبل انرجی کا سیکٹر بھی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ چند برسوں کے دوران توانائی کے بحران اور مہنگی بجلی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے صارفین میں سولر پینلز لگانے کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے مگر اب حکومت نے ان پر 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس کے نفاذ کی تجویز منی بجٹ کے ذریعے پارلیمنٹ میں پیش کی ہے۔
کروڈ آئل یا خام تیل پر عائد 17 فیصد ٹیکس کو ختم کیے جانے اور سولر پینلز پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز پر سولر انڈسٹری سے وابستہ صنعت کار اور ماحولیاتی ماہرین تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
ماحولیات کے تحفظ کے لیے پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت اور وزیراعظم عمران خان دو سال قبل کلین اینڈ گرین موومنٹ کے نام سے ایک پروگرام بھی شروع کر چکے ہیں جس کے بعد سولر پینلز پر ٹیکس کے نفاذ کی حالیہ تجویز کو اس تناظر میں زیادہ تنقید کا سامنا ہے۔

سولر انڈسٹری سے وابستہ صنعت کاروں کی مایوسی

سولر سگما لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر نثار لطیف نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’عام صارف اور ہمارے لیے بھی سولر پینلز پر ٹیکس کی یہ تجویز مایوس کن ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سب سے پہلے تو اس فیصلے کے حکومت کے گرین انرجی کی حوصلہ افزائی اور پھیلانے کے لیے شروع کیے پروگرام پر ہی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘

پاکستان کے دیہی علاقوں میں سولر پینلز لگانے کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا۔ فائل فوٹو: روئٹرز

راولپنڈی میں اپنی فیکٹری کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کے خواہشمند ایک صارف مسعود آفریدی نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ گھر کے لیے 20 کلوواٹ اور فیکٹری میں 90 کلو واٹ کے پینل لگانا چاہ رہے تھے اور اس کے لیے انجینیئر سے سروے بھی کرا لیا تھا مگر اب نئے ٹیکس نے فیصلے پر نظرثانی پر مجبور کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی فیکٹری کے لیے پینلز لگانے کا خرچ ایک کروڑ کے لگ بھگ تھا جو بڑھ جائے گا۔ ’یہ عمران خان اور شوکت ترین کا ہمارے لیے پیکج ہے کیا کریں۔‘
سولر سگما کے نثار لطیف کے مطابق لوگ پہلے ہی سولر انرجی کی طرف مشکل سے آتے ہیں اور اس کی وجہ مہنگا ہونا قرار دیتے ہیں۔ ’لوگ سولر پینل خریدنا چاہتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ قیمت زیادہ ہے۔ ہر بندہ سولر پینل لگانا چاہتا ہے مگر فنانسنگ کا مسئلہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سال 2021 کے دوران سولر پینلز کی فروخت میں گزشتہ برسوں کی نسبت اضافہ ہوا۔ بجلی دن بدن مہنگی ہوتی جا رہی ہے اس لیے لوگ سولر کی طرف جا رہے ہیں۔ اور بہت سے لوگ شمسی توانائی کے پینلز لگانے کا سوچ رہے تھے۔‘

سولر انرجی پر منتقلی کا سوچنے والے صارفین اور ماہرین کیا کہتے ہیں؟

صحافی و تجزیہ کار ضرار کھوڑو نے سولر پینل پر ٹیکس عائد کیے جانے کو ناقابل یقین حد تک پسماندہ سوچ اور رجعت پسندانہ پالیسی قرار دیا ہے۔
انہوں نے فکاہیہ انداز اختیار کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’رینیوایبل انرجی کی حوصلہ افزائی کے لیے زبردست طریقہ اختیار کرتے ہوئے سولر پینلز پر 17 فیصد ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔‘

لاڑکانہ کے مضافات میں ایک شہری اپنی جھگی کے باہر سولر پینل لگا رہا ہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی

ضرار کھوڑو کے مطابق دیہی علاقوں میں شمسی توانائی کا استعمال بڑھ رہا تھا اور لوگ سولر پینلز لگا رہے تھے۔
ان کے مطابق یہ مضحکہ خیز فیصلہ ہے۔
دبئی کی ایک بڑی ٹیکنالوجی فرم کے چیف ٹیکنالوجی افسر فیصل امیر ملک کا کہنا تھا کہ ’ایسے وقت میں جب ہر نئی عمارت سولر پینلز لگا رہی ہے اور اس کا استعمال دیہات میں تیزی سے بڑھ رہا ہے اس کو پھیلنے دینا چاہیے۔‘
انویسٹمنٹ اور فنانس کے شعبے کے ریسرچر سعادت عمر نے لکھا کہ ’ترقی یافتہ ملک توانائی کے متبادل ذرائع یعنی سولر، ونڈ اور گرین ہائیڈروجن کی طرف جا رہے ہیں۔ اور پاکستان ان متبادل ذرائع کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے پسماندگی کی جانب بڑھ رہا ہے۔‘
واشنگٹن میں مقیم فنانشل مارکیٹ کے ماہر پاکستانی بلال شاہ نے لکھا کہ اسلام آباد اور کراچی کے گزشتہ کئی دوروں میں انہوں نے گھروں کی چھتوں پر سولر پینلز دیکھے اور لوگ بجلی سے اس پر منتقل ہونے پر گفتگو کر رہے تھے۔ ’میرے خیال میں یہ سب اب ضائع ہو جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’راولپنڈی میں میرے ایک کزن اور کراچی میں میرے چچا اپنے گھروں کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کا سوچ رہے تھے اور اب وہ شاید ایسا نہ کر سکیں۔‘
سینیئر صحافی ماریانہ بابر نے سولر پینلز پر 17 فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز کا حوالہ دیتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’یہ کون سی سمجھداری ہے؟ توانائی کی شدید قلت کے وقت یہ مجرمانہ ہے اور سولر کے خریداروں کی حوصلہ شکنی کرے گا۔‘

شیئر: