پاکستان کی قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتوں میں ایک بار پھر قربتیں بڑھنے لگی ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے پلیٹ فارم سے الگ ہونے والی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت ایک بار پھر باہم میل ملاقاتوں میں مصروف ہو چکی ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی پارٹیوں کے مشترکہ اجلاس کے بعد شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات، لیگی رہنما شیخ روحیل اصغر کے روایتی عشائیے میں بلاول بھٹو زرداری کی اچانک آمد اور لیگی رہنماوں سے بے تکلفی اور سابق صدر آصف زرداری کی جانب سے ن لیگ کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے کا سلسلہ رک جانے کے بعد اپوزیشن اتحاد میں یکسوئی کا عنصر واضح دکھائی دینے لگا ہے۔
مزید پڑھیں
-
مسلم لیگ ن اور پی پی کی سکروٹنی کا بھی منتظر ہوں: وزیراعظمNode ID: 632921
-
پیپلز پارٹی کا 27 فروری کو حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلانNode ID: 633311
پارلیمانی راہداریوں میں ان ملاقاتوں کی بنیاد پر یہ چہ مگوئیاں کی جا رہی ہیں کہ اپوزیشن اتحاد تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بھی ان ملاقاتوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ پارلیمان کی حد تک یکساں جدوجہد پر اتفاق ہو چکا ہے اور قیادت مل کر ان ہاؤس تبدیلی کا لائحہ عمل طے کرے گی۔
اس حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ن کے جنرل سیکریٹری احسن اقبال نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ن لیگ اور پیپلز پارٹی ایوان میں حکومت کے خلاف یکساں موقف رکھتے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر بھی باہمی بات چیت جاری ہے۔ عمران خان کو ہٹانے کے لیے ہم کسی سے بھی ہاتھ ملانے کو تیار ہیں۔‘
مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے کہا کہ ’اپوزیشن جماعتوں کے قائدین ان ہاؤس تبدیلی پر فیصلہ کریں گے۔ آئینی طریقہ یہی ہے کہ پارلیمنٹ قائم رہے اور ان ہاؤس تبدیلی لائی جائے۔ حکومت اعتماد کھو چکی ہے پارلیمنٹ کے اندر ہی تبدیلی لائی جائے گی اور کوئی غیر آئینی اقدام نہیں اٹھایا جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آئین میں ان ہاؤس تبدیلی کا آپشن موجود ہے۔ پیپلزپارٹی سمیت اپوزیشن کا پارلیمنٹ میں مثالی اتحاد ہے۔ ان ہاؤس تبدیلی سے متعلق جلد متفقہ فیصلہ ہوگا۔‘
![](/sites/default/files/pictures/January/42951/2022/13_0.jpg)
اپوزیشن کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اپوزیشن قیادت حالات کا جائزہ لے رہی ہے اور جوں ہی حالات سازگار ہوں گے تحریک عدم اعتماد آ جائے گی اور کامیاب بھی ہوگی۔‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ سازگار حالات کیا ہوتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ’صحافی کو تو پتہ ہوتا ہے کہ سازگار حالات کسے کہتے ہیں، یعنی جب گرین سگنل مل جائے تب حالات سازگار ہو جاتے ہیں۔‘
اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف بھی ن لیگ سے مختلف نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی نفیسہ شاہ نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’پی ڈی ایم سے نکلنے کے باوجود پیپلز پارٹی کا پارلیمنٹ کے فلور پر ن لیگ کے ساتھ رویہ ایک اتحادی کا ہی رہا ہے۔ دونوں جماعتوں کے پاس ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔ یقیناً سب کی خواہش ہے کہ عمران خان کو اقتدار سے الگ کیا جائے کیونکہ ان کی موجودگی ملک کے لیے نقصان دہ ہے اور ان سے ملک چلایا بھی نہیں جا رہا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’تحریک عدم اعتماد ہو یا پھر ان ہاؤس تبدیلی، یہ آپشنز موجود ہیں اور قیادت ہی فیصلہ کرے گی کہ ان آپشنز کا استعمال کب کرنا ہے۔‘
تاہم انھوں نے تصدیق کی کہ ’دونوں بڑی جماعتیں اس معاملے پر غور و خوض میں مصروف ہیں۔‘
![](/sites/default/files/pictures/January/42951/2022/14.jpg)