Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آرٹیفیشل انٹیلی جنس، لاہور میں قوانین کی خلاف ورزی پر کارروائی کیسے ہوتی ہے؟

آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے اشارہ توڑنے، اوورسپیڈنگ اور دیگر خلاف ورزیوں پر کارروائی ہوتی ہے۔ (فائل فوٹو: سوشل میڈیا)
پاکستان کے مختلف شہروں میں سیف سٹی کیمروں کی مدد سے ای چالان تو کافی عرصے سے کیے جا رہے ہیں۔ تاہم اب پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں سیف سٹی کیمروں کو مکمل طور پر آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا مصنوعی ذہانت پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کے چیف آپریٹنگ آفیسر (سی ای او) محمد کامران خان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ’سیف سٹی سسٹم ایک مربوط نظام ہے۔ ابتدائی طور پر اس کو شہروں کی مانیٹرنگ سے شروع کیا لیکن اس نظام میں اس سے کہیں زیادہ صلاحیت ہے۔ اب آہستہ آہستہ اس سسٹم کے سارے حصے عمل میں لائے جا رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا ’یہ جدید ترین کیمرے ہیں اور اب یہ مکمل طور پر آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر کام کر رہے ہیں۔ اس وقت ہم نے ان میں تین طرح کی پروگرامنگ کر دی ہے۔‘

آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا استعمال کس حد تک ہے؟

محمد کامران خان کے مطابق اس وقت یہ کیمرے اشارہ توڑنے والی گاڑیوں کے چالان کر رہے ہیں اور اسی طرح حد رفتار سے تجاوز کرنے والی گاڑیوں کے بھی خود کار طریقے سے چالان کرتے ہیں۔
’اس کے پیچھے پورا الگورتھم ہے۔ کسی بھی اشارے پر اگر سرخ لائٹ کو کوئی گاڑی کاٹتی ہے، چاہے وہ ایک سے زیادہ گاڑیاں ہوں تو کیمرہ اس وقت ان سب گاڑیوں کی تصاویر لے لیتا ہے۔ اشارے سے پہلے سفید لائن جہاں ہوتی ہے اگر وہ مٹ بھی چکی ہے تو کیمرے کے اندر ایک ورچوئل لائن موجود ہے جو بالکل اسی جگہ پر ہے جہاں اصل لائن ہے۔‘
پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کے سی ای او کا کہنا تھا کہ ’سرخ لائن آن ہوتے ہی جو گاڑیاں اس ورچوئل لائن پر ہوتی ان کی تصاویر کیمرہ محفوظ کر لیتا ہے۔ اور صرف یہی نہیں اس مصنوعی ذہانت کے پروگرام میں ایکسائز اور ناردا کے نظام بھی جوڑے گئے ہیں۔ اگلے ہی سیکنڈ میں تمام اشارہ کاٹنے والی گاڑیوں کی نمبر پلیٹ پڑھ کر، اسی لمحے ایکسائز سے ڈیٹا لے کر اور نادرا سے ایڈریس لے کر کیمرہ چالان جاری کر دیتا ہے۔‘

جدید ترین کیمرے مکمل طور پر آرٹی فیشل انٹیلیجنس پر کام کر رہے ہیں (فوٹو: پکسا بے)

ان کا مزید کہنا تھا کہ اب یہ سسٹم مکمل خود مختار ہو چکا ہے۔ اب اس میں انسانی مداخلت ختم ہو چکی ہے سوائے اس کے کہ ہمارے ہیڈ کوارٹر کے پرنٹر سے جب چالان پرنٹ ہو کر نکلتا ہے تو اس کو ڈاک خانے تک بھیجنے کے لیے صرف انسانی مدد شامل ہے۔

اوور سپیڈنگ پر چالان کیسے ہوتا ہے؟

محمد کامران خان کے مطابق ’ہم نے ہر کیمرے کو ورچوئل فینسنگ یا جیو فینسنگ میں بھی تبدیل کر دیا ہے۔ 100 میٹر کے اس ورچوئل جنگلے میں کوئی بھی گاڑی گزرتی ہے تو اس کی سپیڈ بھی فوری ریکارڈ ہو جاتی ہے۔ اگر یہ رفتار مقررہ حد سے زیادہ ہو تو اسی وقت اس گاڑی کی نمبر پلیٹ پڑھ کے کیمرہ پہلے والے عمل سے ہی چالان جاری کر دیتا ہے۔‘
خیال رہے کہ لاہور میں کینال روڈ کے علاوہ پورے شہر میں حد رفتار 60 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے جبکہ کینال روڈ پر یہ رفتار 70 کلومیٹر ہے۔ سیف سٹی اتھارٹی کے مطابق مکمل مصنوعی ذہانت پر جانے کے بعد اس وقت ای چالان کی روزانہ اوسط تعداد سات ہزار ہو چکی ہے۔
محمد کامران خان کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت میں تیسرا پروگرام اس وقت یہ شامل ہے کہ جو گاڑی بار بار قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہوتی ہے تو اس کو یہ لاک کر لیتی ہے اور خاص خلاف ورزیوں کے بعد وہ اس گاڑی کے حوالے سے الرٹ جاری کرنا شروع کر دیتی ہے، جس سے ہمیں اس گاڑی لی لوکیشن ملتی رہتی ہے اور ٹریفک پولیس کو فوری مطلع کر دیا جاتا ہے جو اسے روک لیتے ہیں۔
سیف سٹی اتھارٹی کے چیف آپریٹنگ آفیسر محمد محمد کامران خان نے مزید بتایا کہ اب ہم چہروں کی شناخت کے عمل کو بھی اس مصنوعی ذہانت پروگرام کا حصہ بنا رہے ہیں جو کہ ملزمان کو براہ راست چہروں کے خدوخال سے پہچان لے گا اس پر نادرا کے ساتھ کام جاری ہے۔

شیئر: