Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جسٹس قاضی فائز کیس کا فیصلہ: وزیراعظم اور وزیر قانون کو خطرہ ہو سکتا ہے؟ 

سپریم کورٹ نے نو ماہ بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔ فائل فوٹو: روئٹرز
پاکستان کی سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں نظرثانی درخواستوں کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ فیملی کے خلاف ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دینا غلط تھا۔ ان کے اہل خانہ کا ٹیکس ریکارڈ غیر قانونی طریقے سے اکٹھا کیا گیا۔ 
فیصلے میں سرینا عیسیٰ کے ٹیکس معاملے میں شہزاد اکبر اور فروغ نسیم کی ہدایات کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔  
اس فیصلے میں شامل اضافی نوٹ میں جسٹس یحیٰ آفریدی نے لکھا کہ ’ریفرنس کی وزیراعظم عمران خان نے بھی توثیق کی جس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔‘ 
انھوں نے نے مزید کہا کہ ’وزیراعظم نے عدالت کے اس متفقہ فیصلے کے باوجود کہ ’سرینا عیسیٰ کے خلاف تحقیقات میں آئین، قانون اور انکم ٹیکس آرڈینیس کے سیکشن 216 کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور اسے کے فوجداری نتائج ہوں گے۔ اس کے باوجود مشیر احتساب اور وزیر قانون کو اپنا کام جاری رکھنے کی اجازت دیے رکھی۔ اس سے قانون کی خلاف ورزی کے ارتکاب میں وزیراعظم کی ان افراد کے ساتھ ملی بھگت کھل کر سامنے آتی ہے۔‘  
اس تحریری فیصلے کے بعد مشیر احتساب جو کہ پہلے ہی مستعفی ہو چکے ہیں، وزیر قانون اور وزیراعظم کے خلاف مستقبل قریب میں کسی نئی قانونی مہم جوئی پر بحث شروع ہو چکی ہے۔  
کیا اس فیصلے سے وزیراعظم یا دیگر حکومتی وزراء کو کوئی خطرہ ہے؟ اس حوالے سے قانونی ماہرین کی آرا مختلف ہیں۔ 
حکومت کی قانونی ٹیم کے اہم رکن ایڈووکیٹ سپریم کورٹ فیصل چوہدری نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’سنگین نتائج کی بات ایک اقلیتی کی رائے ہے۔ فیصلے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ مجموعی طور پر بھی فیصلے کو سراہا نہیں جا رہا۔ یہ بات تو طے ہے کہ جب آپ دوسروں کا احتساب کریں گے تو آپ کو اپنا اور اپنے اہل خانے کے مالی معاملات کا حساب بھی دینا ہوگا۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’اس فیصلے کے تحت کسی حکومتی یا سرکاری شخصیت کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی۔‘  
معروف قانون دان اور سینیٹر کامران مرتضٰی نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’جسٹس یحیٰ آفریدی کا نوٹ مرکزی فیصلے کا حصہ نہیں ہے۔ جب مرکزی فیصلے میں کسی کے خلاف کوئی کارروائی تجویز نہیں کی گئی تو ان کے اضافی نوٹ کے تحت بھی کسی کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی۔‘ 

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اعلیٰ عدلیہ کے جج کے خلاف کارروائی صرف سپریم جوڈیشل کونسل میں کی جا سکتی ہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی

انھوں نے واضح کیا کہ ’جسٹس فائز عیسیٰ کیس یا نظرثانی درخواستوں کے تحریری فیصلے سے وزیر اعظم سمیت کسی حکومتی شخصیت کو کوئی خطرہ نہیں۔‘  
سابق جج لاہور ہائی کورٹ اور سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل شاہ خاور ایڈووکیٹ اپنے ساتھ وکلاء رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اکثریتی اور اقلیتی فیصلے کا سوال تب پیدا ہوتا ہے جب اکثریتی ججز نے ایک فیصلہ دیا ہو اور اقلیتی ججز کوئی کارروائی تجویز کر رہے ہوں۔ یہاں معاملہ اس کے الٹ ہے۔ باقی ججز نے سرینا عیسیٰ کے خلاف کارروائی کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا ہے۔ جسٹس یحیٰ آفریدی نے اپنے اضافی نوٹ میں غیر قانونی اقدامات کے سنگین نتائج سے آگاہ کیا ہے۔ اس لیے وزیراعظم، وزیر قانون اور مشیر برائے احتساب کے خلاف کارروائی ممکن ہے۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’عدالت نے اپنے فیصلے میں براہ راست کارروائی کا حکم نہیں دیا لیکن یہ واضح بتا دیا ہے کہ غیر قانونی احکامات دے کر ایک جج کو نشانہ بنایا گیا۔ جب سپریم کورٹ کے ایک جج کو نشانہ بنایا گیا ہے تو یہ توہین عدالت ہوئی۔ اب کوئی بھی ان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کر دے تو عدالت توہین عدالت کے تحت فیصلہ دے سکتی ہے۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’یوسف رضا گیلانی نے بحیثیت وزیر اعظم صرف عدالت کے ایک حکم پر عمل در آمد نہیں کیا تھا تو انھیں توہین عدالت کا مرتکب قرار دے کر نکال دیا گیا تھا۔ یہ بھی ایک جج کی توہین کا معاملہ ہے اور توہین عدالت کی درخواست دائر ہوئی تو وزیراعظم اور وزیر قانون کے لیے مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔‘
خیال رہے کہ حکومت نے 2019 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ان کی اہلیہ اور بچوں کی بیرون ملک جائیدادوں کو اپنے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے کو بنیاد بنا کر سپریم جوڈیشنل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔  
قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم جوڈیشنل کونسل کی کارروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا سپریم کورٹ نے جون 2020 میں ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی اہلیہ کے اثاثوں کی چھان بین کا معاملہ ایف بی آر کو بھیج دیا تھا۔ سرینا عیسیٰ اور دیگر نے اس فیصلے پر نظر ثانی درخواستیں دائر کیں۔ نظر ثانی فیصلے میں سپریم کورٹ نے اس سارے معاملے کو ختم کرتے ہوئے قرار دیا کہ معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔  
گزشتہ روز نو ماہ بعد سپریم کورٹ نے اس کیس کا تحریری فیصلہ جاری کیا ہے۔   

شیئر: