نور مقدم کیس، آئی جی اسلام آباد کے خلاف کارروائی کی درخواست مسترد
نور مقدم کیس، آئی جی اسلام آباد کے خلاف کارروائی کی درخواست مسترد
پیر 7 فروری 2022 11:28
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
عدالت نے وکلا کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو آج پیر کی شام تک سنا دیا جائے گا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
نور مقدم قتل کیس میں اسلام آباد کی مقامی عدالت نے مرکزی ملزم کی جانب سے آئی جی اسلام آباد کے خلاف کارروائی کے لیے دائر درخواست سمیت تین درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے۔
پیر کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج عطا ربانی نے نور مقدم کیس کی سماعت کرتے ہوئے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی جانب سے دائر کی گئی تین درخواستوں پر دلائل طلب کیے۔
پبلک پراسیکیوٹر حسن عباس نے آئی جی اسلام آباد کے خلاف دائر درخواست پر دلائل دیتے کہا کہ ’درخواست میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے عدالتی کارروائی پر وضاحت جاری کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ پولیس نے ایسی کوئی پریس کانفرنس نہیں کی۔‘
پبلک پراسیکیوٹر کے مطابق ’اسلام آباد پولیس کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے میڈیا پر عدالتی کارروائی کی غلط رپورٹنگ پر وضاحت دی گئی۔‘
پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ ’پولیس نے ملزم کے کپڑوں پر خون کے نشانات نہ ہونے اور فنگر پرنٹس میچ نہ ہونے سے متعلق وضاحت دی تھی۔‘
مدعی کے وکیل نثار اصغر عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کی جانب سے اس موقع پر درخواستیں دینا کیس کو طول دینے کے علاوہ کچھ نہیں۔
مرکزی ملزم کے وکیل کے معاون شہریار خان نے موقف اپنایا کہ پولیس نے اگر میڈیا کی غلط رپورٹنگ پر وضاحت دی بھی ہے تو وہ عدالتی کارروائی سے متعلق ہے۔ ’کیا آئی جی اسلام آباد کو زیر التوا مقدمے سے متعلق وضاحت دینے کا اختیار ہے؟‘
انہوں نے استدعا کی کہ عدالت اس معاملے پر مناسب احکامات جاری کرے۔
نور مقدم کی والدہ کے زیر استعمال موبائل نمبر کی اصل ملکیت جانچنے سے متعلق درخواست پر مدعی کے وکیل نثار اصغر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ نمبر مقتولہ کی والدہ کے زیر استعمال ہے اور اس کی تصدیق کال ریکارڈ ڈیٹا سے حاصل ہونے والی لوکیشن سے کی گئی ہے۔‘
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ’درخواست کو اس موقع پر دائر کرنا عدالت کا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ اس درخواست کا ملزم کے دفاع سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ کال ریکارڈ یا ڈیٹا کی بنیاد پر ہمارا کیس ہی نہیں ہے۔‘
ملزم کی جانب سے دائر جائے وقوعہ کے نقشے سے متعلق تیسری درخواست پر دلائل دیتے ہوئے مدعی کے وکیل نے کہا کہ ’نقشے میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ کون سا ایریا گرین ہے اور جنگل کا حصہ ہے۔ نقشہ کسی طور پر بھی ملزم کے حق میں شواہد یا کسی گواہ پر اثر انداز نہں ہوتا اس لیے یہ درخواست بھی مسترد کی جائے۔‘
ملزم کے معاون وکیل شہریار خان نے دلائل دیے کہ جائے وقوعہ کا نقشہ درست انداز میں نہیں بنایا گیا، جہاں جنگل ہے وہاں گھر دکھایا گیا اور خارجی راستوں اور بیسمنٹ کا بھی ذکر موجود نہیں ہے۔
انہوں نے استدعا کی کہ عدالت جائے وقوعہ کا دورہ کرے، جبکہ مقتولہ کی والدہ کے موبائل نمبر سے متعلق درخواست پر کہا کہ ’یہ ضروری ہے کہ موبائل نمبر کی ملکیت کی تصدیق کی جائے اور عدالت اس سلسلے میں ریکارڈ منگوا لے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔‘
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج عطا ربانی نے وکلا کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ عدالت نے درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے تینوں کو خارج کر دیا۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت بدھ 9 فروری تک ملتوی کر دی ہے جس میں ملزمان کے بیانات قلمبند کیے جائیں گے۔