نور مقدم کیس، ’پولیس کو وضاحتی بیان جاری نہیں کرنا چاہیے تھا‘
نور مقدم کیس، ’پولیس کو وضاحتی بیان جاری نہیں کرنا چاہیے تھا‘
بدھ 26 جنوری 2022 16:57
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
بدھ کو جج عطا ربانی کی کمرۂ عدالت کے باہر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے (فائل فوٹو: سکرین گریب)
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں سابق سفارت کار شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم کے قتل کیس کے ٹرائل کے دوران عدالت نے پولیس کی جانب سے وضاحتی بیان جاری کرنے پر اظہار ناراضی کیا ہے۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا ربانی نے کہا کہ دوران ٹرائل پولیس کو وضاحتی بیان نہیں جاری کرنا چاہیے تھا، زیرالتوا مقدمات میں وضاحتی بیان کی ضرورت کیا ہے؟ میں اس معاملے کو دیکھوں گا۔‘
بدھ کو جج عطا ربانی کی کمرۂ عدالت کے باہر غیر معمولی رش تھا اور اس موقعے پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
گذشتہ سماعت کے دوران تفتیشی افسر کے بیان پر سوشل میڈیا پر تنقید سامنے آنے کے بعد پولیس بھی خاصی متحرک نظر آئی اور سماعت سے قبل اسلام آباد پولیس کے ایس ایس پی انویسٹی گیشن عطا الرحمان بھی کچہری میں موجود تھے جہاں انہوں نے پراسیکیوشن ٹیم کے ساتھ ملاقات کی۔ تفتیشی افسر بھی اس سماعت میں جرح کے دوران سوال کا جواب دینے کے ساتھ وضاحت بھی دیتے رہے۔
گذشتہ سماعتوں کے برعکس مدعی شوکت مقدم جرح کے دوران خود کچھ نوٹس تحریر کرتے رہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ سماعت میں مرکزی ملزم کے وکیل سکندر ذوالقرنین کی جانب سے جرح کے دوران تفتیشی افسر نے بتایا تھا کہ ’جائے وقوعہ سے برآمد کیے گئے پستول اور چاقو پر ظاہر جعفر کے فنگر پرنٹس نہیں پائے گئے۔ گرفتاری کے وقت مرکزی ملزم کی پتلون خون آلود نہیں تھی جبکہ چاقو سے برآمد ہونے والا بال بھی ڈی این اے کے لیے موزوں نہیں تھا۔‘
تفتیشی افسر کے دورانِ جرح جوابات پر سوشل میڈیا صارفین نے کیس کی تفتیش پر تنقید کی۔ اس پر آئی جی اسلام آباد نے اجلاس بلاتے ہوئے باضابطہ طور پر کیس کی تفتیش سے متعلق وضاحت بھی جاری کی۔
دوران سماعت کیا ہوا؟
بدھ کو نور مقدم کیس میں تفتیشی افسر پر وکلا کی 5 گھنٹے سے زائد جرح جاری رہی، جس کے بعد تھیراپی ورکس کے سی ای او کے وکیل اور مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ملازمین کے وکیل کی جرح مکمل ہو گئی۔
جرح کے آغاز میں مرکزی ملزم کی والدہ عصمت آدم جی کے وکیل اسد جمال نے اسلام آباد پولیس کی جانب سے گذشتہ سماعت پر جاری کی جانے والی وضاحت پر اعتراض اٹھایا اور استفسار کیا کہ کیا اس کو ریکارڈ کا حصہ بنا دیا جائے؟ پراسیکیوٹر حسن عباس نے کہا کہ میڈیا کے بیانات کو میڈیا تک ہی رہنے دیں۔ اس پر پراسیکیوٹر اور وکیل اسد جمال کے درمیان مکالمہ ہوا کہ یہ بیان آئی جی اسلام آباد کی جانب سے دیا گیا ہے، آئی جی ہوں یا چیف سیکریٹری یہ آپ کے ماتحت آتے ہیں۔
پراسیکیوٹر حسن عباس نے کہا کہ آئی جی نے نہیں بلکہ اسلام آباد پولیس نے بیان جاری کیا ہے۔ جج عطا ربانی بولے کہ میرا مزاج اس طرح نہیں کہ میں ان چیزوں پر کارروائی کروں، میں نے یہ بیان نہیں دیکھا، اگر یہ بیان پولیس کی طرف سے آیا ہے تو میں اسے دیکھ لیتا ہوں، دوران ٹرائل اور زیر التوا مقدمات میں پولیس کو وضاحت جاری نہیں کرنا چاہیے تھی۔‘
مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے گرفتار ملازمین کے وکیل نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ نور مقدم کا موبائل فون کس وقت تک آن تھا؟ اس پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ 20 جولائی کی صبح 10 بجے تک مقتولہ کا نمبر آن تھا۔ جرح کے دوران تفتیشی افسر نے سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ ’18 سے 20 جولائی تک نور مقدم کے فون پر کالز موصول بھی ہوئیں اور انہوں نے کالز بھی کیں اور اس دوران کال ریکارڈ کے مطابق مختلف نمبرز سے میسجز بھی آتے جاتے رہے۔‘
وکیل نے جرح کے دوران سوال پوچھا کہ کیا نور مقدم کے نمبر سے 18 سے 20 جولائی کے دوران زندگی کو خطرہ لاحق ہونے کی کسی کو اطلاع دی تھی؟ یا کسی تھانے یا 15 پر اطلاع دی گئی؟ تفتیشی افسر نے کہا کہ کال ریکارڈ کے مطابق 18 سے 20 جولائی تک نور مقدم کے نمبر سے کسی کو بھی اس طرح کی اطلاع نہیں دی گئی۔
تفتیشی افسر نے دوران جرح بتایا کہ جائے وقوعہ پر موجود ملازمین افتخار، جمیل اور جان محمد کا سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آنے کے بعد چہرے کی شناخت کا ٹیسٹ نہیں کروایا گیا۔
تھیراپی ورکس کے سی ای او کے وکیل اکرم قریشی نے استفسار کیا کہ جب تھیراپی ورکس کے ملازمین کو آپ نے گرفتار کیا تو ان کا موقف تھا کہ ہم طبی امداد دینے جائے وقوعہ پر گئے تھے؟
اس پر تفتیشی افسر نے بیان دیا کہ ’نہیں! تھیراپی ورکرز کا کہنا تھا کہ وہ طاہر ظہور کے کہنے پر جائے وقوعہ پر پہنچے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جب جائے وقوعہ پر پہنچا تو پولیس ساتھیوں نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو پکڑا ہوا تھا لیکن یہ بات ڈی وی آر میں نظر نہیں آئی۔‘
وکیل اکرم قریشی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے تفتیشی افسر نے بتایا کہ ’ڈی وی آر کے مطابق تھیراپی ورکس والوں نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو زخمی حالت میں گاڑی میں نہیں رکھا۔‘
ٹرائل میں تھیراپی ورکس کے سی ای او اور گھریلو ملازمین کے وکلا کی تفتیشی افسر پر جرح مکمل ہو گئی ہے جس کے بعد تھیراپی ورکرز کے وکیل نے عدالت میں ایک بار پھر سی سی ٹی وی فوٹیج چلانے کی استدعا کی جو کہ منظور کر لی گئی اور اِن کیمرہ سماعت کے دوران فوٹیج چلائی گئی۔
عدالت نے آئندہ سماعت 2 فروری تک ملتوی کر دی جس میں تھیراپی ورکرز کے وکیل جرح مکمل کریں گے۔
عدالت نے آج (بدھ) کی سماعت میں یہ بھی طے کرلیا کہ آئندہ سماعت سے قبل تمام ملزمان کو سوال نامہ فراہم کردیا جائے گا اور آئندہ سماعت پر ہی ان کے جوابات بھی جمع کروائے جائیں گے۔