پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے گذشتہ روز پیر14 فروری کو لاہور سے مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے ایک سوشل میڈیا ورکر کو حراست میں لیا ہے۔
صابر ہاشمی نامی اس نوجوان پر جو ایف آئی آر درج کی گئی ہے اس میں مدعی کے طورپر ریاست کا نام لکھا گیا ہے۔ ایف آئی آر کی تحریر کے مطابق ’ایف آئی اے کے چند افسران نے سوشل میڈیا پر ایسا مواد دیکھا جس میں وزیر اعظم کی توہین کی گئی ہے۔ اسی طرح وزیر اعظم کے اہلخانہ اور پاک فوج کے افسران کے خلاف بھی توہین آمیز زبان استعمال کی گئی ہے۔‘
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کا زیادہ تر مواد صابرمحمود، کامران شیروانی اور عاصم ملک نامی صارفین کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر جاری کیا گیا اور ٹویٹر پر ٹرینڈ بھی بنائے گئے ’جو کہ اخلاقی طور پر بھی ٹھیک نہیں تھے۔‘
مزید پڑھیں
-
پاکستان کے وزیر مذہبی امور کی ’عورت مارچ‘ پر پابندی کی تجویزNode ID: 644926
تاہم اس ایف آئی آر میں ان ٹویٹس یا مواد کو نقل نہیں کیا گیا کہ آخر وہ کون سے جملے تھے جن سے ریاست کو خود مقدمہ دائر کرنا پڑا۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ابتدائی معلومات سامنے آنے کے بعد مزید تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں اور ان افراد کے حوالے سے عدالت سے وارنٹ بھی حاصل کیے جا چکے ہیں۔
صابر ہاشمی نامی لیگی ورکر کی گرفتاری کے بعد مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اس پر عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ ’ایف آئی اے کو چاہیے کہ اس گرتی ہوئی حکومت کا آلہ کار بننے سے گریز کرے۔‘
اس گرفتاری کے حوالے سے اردو نیوز سے ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور ریجن ڈاکٹر رضوان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ رابطے میں نہیں آئے۔
تاہم منگل کو سوشل میڈیا پر چلائے جانے والے نازیبا ٹرینڈز سے متعلق وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ سوشل میڈیا اور کچھ ٹی وی چینلز پر غیر مہذب زبان استعمال کی جا رہی ہے جو پاکستان کے سنجیدہ طبقہ کے لئے پریشان کن صورتحال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے قانون سازی بہت ضروری ہے اور اس ضمن میں سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے اہم شخصیات بالخصوص خواتین پر الزامات اور ان کے خلاف سوشل میڈیا پر گھٹیا الزامات لگانے کے سلسلے پرگہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس کے تدارک کے لیے قانون سازی پر زور دیا ہے۔

سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے صارفین کا ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے جس میں کئی لوگ یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ ایف آئی اے کا برتاؤ جانبدرانہ کیوں ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے سوشل میڈیا پر حالیہ تنازع ٹی وی اینکر غریدہ فاروقی کے شو کے کلپ کے وائرل ہونے کے بعد سامنے آیا جس میں وفاقی وزیر مراد سعید کی دیگر وزرا کے مقابلے میں بہترین کارکردگی کے حوالے سے گفتگو کی گئی تھی۔
اس گفتگو کو حکومت کے تقریبا تمام وزرا نے تنقید کا نشانہ بنایا اور ٹویٹ کیے، حتیٰ کہ اس بہترین وزرا کی فہرست میں نام نہ بنا سکنے والے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی ایک ٹویٹ کے ذریعے اس ٹی وی شو کی گفتگو کو ہدف تنقید بنایا۔
اس کے بعد نیوز اینکر غریدہ فاروقی کے خلاف سوشل میڈیا پر ایسے ٹرینڈ سامنے آئے جو بد اخلاقی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس کے بعد وزیر اعظم عمران خان کے خلاف بھی رد عمل میں اسی سے ملتے جلتے ٹرینڈ بنائے گئے۔
پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ میں سوشل میڈیا پر ہونے والی ٹرولنگ کئی دفعہ سنجیدہ ایکشنز پر منتج ہوئی ہے۔ ماضی میں ایف آئی اے نے کئی صحافیوں کو گرفتار جب کہ کئی صحافیوں کو نوٹس بھیجے ہیں جن پر حکومت پر بلاوجہ تنقید کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
صحافی غریدہ فاروقی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ’ایک نہیں دو پاکستان کی اس سے بہتر مثال نہیں ہو سکتی۔ غلیظ ٹرینڈ وزیر اعظم سے پہلے میرے خلاف بنائے گئے لیکن ریاست نے کوئی مقدمہ درج کیا اور نہ کسی کو گرفتار کیا۔ بلکہ میں تو یہ تک کہوں گی کہ میری اس وقت تک چھ درخواستیں ایف آئی اے میں پڑی ہوئی ہیں جس میں، میں نے شکایت کا اندراج کروایا ہے کہ مجھے کس طرح آن لائن ہراساں کیا گیا ہے۔ لیکن آج تک ایف آئی اے نے کوئی بھی کیس نہیں چلایا۔‘
غریدہ فاروقی نے کہا کہ ’اس بات کا جواب کون دے گا کہ ریاست صرف ایک ہی سیاسی جماعت کی داد رسی کرنے کے لیے ہے؟
