پاکستان اور افغانستان کے وزرائے تجارت کے درمیان ہونے والے مذاکرات التوا کا شکار ہوگئے ہیں جبکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کرنے والے تاجروں کی مشکلات میں مسلسل اضافے کی وجہ سے باہمی تجارت کا حجم مسلسل کم ہو رہا ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو میں مشیر تجارت رزاق داؤد نے بتایا کہ انھوں نے اپنے افغان ہم منصب کے ساتھ مذاکرات کے لیے سوموار کے روز طورخم جانا تھا۔ اس ملاقات میں پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف اور دیگر اعلیٰ حکام نے بھی شریک ہونا تھا۔
رزاق داؤد کے مطابق ’ان مذاکرات کا بنیادی ایجنڈا پاک افغان بارڈر پر تاجروں کو درپیش مشکلات، باہمی تجارت کے فروغ اور روزانہ آنے جانے والے پیدل افراد کے مسائل سے متعلق تھا۔‘
مزید پڑھیں
-
افغانستان سے پاکستانی روپے میں تجارت کے اثرات کیا ہوں گے؟Node ID: 598846
انھوں نے کہا کہ ’ہم ان مذاکرات اور تاجروں کے مسائل کے حل کے لیے مکمل تیار تھے کہ مجھے بتایا گیا کہ افغان وزارت تجارت کی جانب سے درخواست آئی ہے کہ ان مذاکرات کو کچھ روز کے لیے ملتوی کر دیا جائے۔‘
اس حوالے سے سیکریٹری تجارت نے بتایا ہے کہ اس وقت دونوں ممالک کے تاجروں کو جن چند بڑے مسائل کا سامنا ہے ان میں متعدد ایجنسیوں کی جانب سے سامان کی کلیئرنس، افغانستان میں بینکنگ چینلز کی عدم موجودگی سمیت افغانستان میں سکیورٹی کے مسائل ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’ان مسائل کے حل کے لیے دونوں ممالک نے تمام سرحدی امور بالخصوص تجارت کے مسائل کو مل کر حل کرنے کے لیے نیشنل لیول کمیٹیاں تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ کمیٹیاں مل کر فیصلے کریں جس سے دونوں ممالک کے تاجروں کے مسائل حل اور باہمی تجارت کا فروغ ممکن ہے۔‘
سیکریٹری تجارت نے کہا کہ ’پاکستان نے اس حوالے سے وزارت تجارت، ایف بی آر، وزارت ریلویز، وزارت مواصلات، وزارت بحری امور، وزارت خارجہ، وزارت داخلہ اور پاک افغان جوائنٹ چیمبرز کے حکام پر مبنی کمیٹی گزشہ ماہ تشکیل دے دی تھی۔ تاہم افغان حکومت کی طرف سے ابھی تک کمیٹی کی تشکیل ہونا باقی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ان کمیٹیوں کے ٹی او آرز میں دونوں ممالک کے درمیان کراسنگ پوائنٹس کے حوالے سے فیصلہ سازی، ٹرکوں کی بلا روک ٹوک آمدورفت، کراسنگ پوائنٹ کے اوقات کار، کسٹمز اور دیگر تکنیکی سٹاف کی دستیابی یقینی بنانا، ڈرائیورز، ہیلپرز اور دیگر کے ویزہ مسائل کا حل، بین الاقوامی ٹرانسپورٹ کے قواعد پر عمل در آمد اور مزید کراسنگ پوائنٹس کے کھولنے سے متعلق امور شامل ہیں۔‘
پاکستان کی جانب سے قومی سطح کی کمیٹی کی تشکیل کے بارے میں کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے ذریعے افغان حکام کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وقتی طور پر دونوں ممالک نے تاجروں کی مشکلات اور باہمی تجارت کا سلسلہ جاری رکھنے کے حوالے سے کچھ اقدامات کیے ہیں جن میں بینکنگ چینل کی عدم موجودگی کی وجہ سے باہمی تجارت میں مسلسل کمی کو دیکھتے ہوئے بارٹر ٹریڈ سسٹم متعارف کرایا جا رہا ہے۔
’اس سلسلے میں پاکستان کی جانب سے کوئٹہ چیمبر آف کامرس اور زاہدان چیمبر آف کامرس کے درمیان ہونے والے معاہدے کا مسودہ افغان حکومت کو بھیجا ہے جنھوں نے جواب میں اس پر بھی کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز دی ہے۔ جلد ہی نجی شعبے سے مشاورت کے بعد کمیٹی تشکیل دے کر افغان حکومت کو آگاہ کر دیا جائے گا۔’
اس کے علاوہ پاکستان اور افغانستان نے فیصلہ کیا ہے کہ بینکنگ چینلز کی بندش کی وجہ سے باہمی تجارت کو ڈالر کے بجائے پاکستانی روپے میں کیا جائے۔ اس کے لیے ابتدائی طور پر چاول، مچھلی، پولٹری، چینی، فروٹ، میوہ جات، سبزیوں، نمک، سیمنٹ، فارماسوٹیکل، ماچس، ٹیکسٹائل، عمارتی پتھر اور سرجیکل آلات کی تجارت پاکستانی روپے میں کی جائے گی۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد اس حوالے ایس آر او جاری کیا جا چکا ہے۔
