اس نماز کے وجودِ شرعی کی ہی نفی ہوتی ہے جس نماز میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی گئی ہو،وہ نماز صحیح نہیں ہوتی جس میں فاتحہ نہ پڑھی جائے
- - - - - - -
گزشتہ سے پیوستہ
- - - - - - -
محمد منیر قمر ۔ الخبر
وجوب قراء ت فاتحہ خلف الامام کے قائلین کا استدلال ایک دوسری آیت سے بھی ہے جوسورہ المزمل کی آیت 30 ہے جس میں ارشادِ الٰہی ہے : قرآن میں سے جو آسان ہو وہ پڑھو ۔ اس آیت سے وجۂ استدلال یوں ہے کہ نماز میں مطلق قراء ت کی فرضیت پر تو علماء احناف نے بھی اس آیت سے استدلال کیا ہے اور ان کے نزدیک اس آیت کا مخاطب جس طرح منفرد ہے ،ویسے ہی امام و مقتدی بھی تو ہے لہذا یہ آیت جس طرح منفرد سے قراء ت کا تقاضا کرتی ہے ایسے ہی امام و مقتدی سے بھی ۔ اب رہا معاملہ یہ کہ اس آیت میں مَا تَیَسَّرَ سے مراد کیا ہے ؟ اسکے بارے میں علماء احناف کے دو قول ہیں : امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک قرآن کی کوئی ایک آیت اور امام ابو یوسف و محمدؒکے نزدیک3 آیتیں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آیت کہ الفاظ مَا تَیَسَّرَکی تعیین ایک آیت یا 3آیتوں سے کرنا محض ایک دعویٰ ہے جسکی کوئی دلیل نہیں نہ قرآن و سنت سے اور نہ ہی اجماعِ امت سے بلکہ اسکے بر عکس قائلین وجوب ِ فاتحہ کا کہنا ہے یہاں مَا تَیَسَّرَسے مراد سورۂ فاتحہ ہے کیونکہ وہی ’’ السبع المثانی ‘‘ یعنی نماز میں بار بار پڑھی جانے والی ہے جیسا کہ پہلی آیت کے تحت بعض احادیث و آثار ذکر کئے گئے ہیں ۔ اورحدیث ’’فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ‘‘متواتر حدیث ہے جیسا کہ امام بخاری نے جزء القراء ۃ میں کہا ہے اور ایک جگہ یہاں تک لکھا ہے : پورے عالم اسلام کے تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنی چاہئے۔ علامہ سیوطی نے الاتقان میں لکھا ہے : اسلام میں فاتحہ کہ بغیر نماز کا کوئی ثبوت نہیں ۔ امام بخاری و سیوطی رحمہما اللہ کے بیان کردہ اس تواترِ عملی و تواترِ قولی سے معلوم ہواکہ عموم کی تعیین سورۂ فاتحہ سے کرنا بالاتفاق جائز ہے بلکہ لازماً سورۂ فاتحہ ہی مراد لینا ہوگا کیونکہ حدیث سے صرف اسی کی تعیین ہی ثابت ہوتی ہے ۔
نماز اچھی طرح نہ پڑھنے والے صحابی والی معروف حدیث سے بھی اس آیت کی تفسیر ہوتی ہے چنانچہ اس حدیث کے بعض طرق میں ہے : پھر قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھو جو تمہیں یاد ہو ۔ بعض روایات میں بالصراحت مذکور ہے : پھر ام القرآن اور مزید جتنا اللہ چاہے اتنا پڑھو ۔ اس حدیث کے آخر میں ہے :پھر ساری نماز کی ہر رکعت کو اسی طرح پڑھو ۔ علامہ عینی وابن ہمام رحمہما اللہ نے اس سے آخری دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے وجوب پر استدلال کیا ہے جبکہ ابو داؤد میں ام القرآن کے الفاظ واضح ہیں ۔
استاذالاساتذہ حضرت حافظ محمد محدث گوندلوی ؒ نے بھی ان دونوں آیتوں سے اپنی کتاب ’’ خیر الکلام ‘‘ میں سورۂ فاتحہ کی فرضیت پر استدلال کیا ہے اور باوجود اسکے کہ صاحب احسن الکلام نے مختلف احادیث کا کسی نہ کسی طرح سے جواب لکھا ہے لیکن ان آیات کا ان سے کوئی جواب نہیں بن پڑا بلکہ خاموشی میں ہی عافیت پائی ہے ۔ اسی سلسلہ میں وہ ایک تیسری آیت سے بھی استدلال کرتے ہیں جو سورۂ نجم کی آیت 39 ہے جس میں ارشاد الٰہی ہے : اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ قائلین ِ وجوب کا کہنا ہے کہ اس آیت میں ایک قاعدہ بیان ہواہے کہ انسان کو اسکی اپنی سعی وعمل ہی کام دینگے اور چونکہ پہلے ذکر کی گئی دونوں آیتوں سے قراء ت فاتحہ کی فرضیت ثابت ہوتی ہے لہذا مقتدی کا بھی یہی فریضہ ہے اور اگر مقتدی نے فاتحہ نہیں پڑھی تویہ فریضہ اسکے ذمے رہے گا ۔ الّا یہ کہ وہ معذور ہو لہذا محض امام کے فاتحہ پڑھ دینے سے مقتدی اس فریضہ سے بری ٔالذمہ کیسے ہوسکتا ہے؟ خصوصاً جبکہ نماز خالص بدنی عبادت ہے اور بدنی عبادت میں نیابت ائمہ احناف کے نزدیک بھی صحیح نہیں جسکی تفصیل حضرت محدث گوندلوی کی کتاب ’’ خیر الکلام‘‘میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ اس آیت سے طریقۂ استدلال ، اس پر فریقِ ثانی کی طرف سے مؤلفِ کتاب ’ ’ احسن الکلام‘‘ (مولانا سر فراز خان صفدر صاحب آف گکھڑ ) کے بعض اعتراضات اور ان کے مسکت جوابات کی تفصیل مطلوب ہوتو حضرت العلام حافظ محمد گوندلوی ؒ کی کتاب ’’ خیر الکلام‘‘ اور مولانا ارشاد الحق اثری کی کتاب ’’ توضیح الکلام ‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ فریق ِ اول یعنی قائلین ِ قراء ت کا وجوب فاتحہ پر استدلال ایک چوتھی آیت سے بھی ہے جونویں پارے میں سورۂ الاعراف کی آیت205 ہے ۔
اسمیں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : اور اپنے رب کو دل ہی دل میں عاجزی اور خوف سے، پست آواز سے صبح و شام یاد کرتے رہو۔ اس آیت سے قائلینِ وجوبِ فاتحہ کا استدلال یوں ہے کہ پہلی ذکر کردہ تینوں آیات سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ سورۂ فاتحہ نماز کی ہر رکعت میں ہر نمازی کیلئے فرض ہے اور یہ بھی کہ قرا ء ت فاتحہ نماز کا رکن ہے اور یہ کہ عباداتِ بدنیہ میں نیابت صحیح نہیں اور اس آہستہ آواز سے پڑھنے والی آیت سے پہلے والی آیت {وَإِذَا قُرِیٔ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَہُ وَأَنصِتُوا}میں چونکہ قرآن مجید سننے کا حکم ہے، اس لئے یہاں اگلی ہی آیت میں یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ آہستہ پڑھو ،آہستہ پڑھنا انصات اور ستماع کے منافی نہیں ۔ آیت کی تفسیر و تشریح اگر امام ابن جریر کی تفسیر میں اور علامہ آلوسی کی روح المعانی میں ملاحظہ کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسے انہوں نے مقتدی سے خطاب بتا یا ہے ۔علّامہ عبد الحیٔ لکھنوی نے ابن جریر اور ابو الشیخ کے حوالے سے اسے ابن زیدؒ کا قول بتایا ہے جو اپنے والد زید بن اسلم سے روایت بیان کرتے ہیں جو کہ تابعین کرام رحمہم اللہ میں سے ہیں اور خیر الکلام میں تفسیر نیشاپوری کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ اس میں تصریح ہے کہ آہستگی سے پڑھنا انصات کے منافی نہیں اور اس بات کی تفصیل فریقِ ثانی کے دلائل کے ضمن میں ان شاء اللہ ذکر کی جائیگی۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے بھی سری نمازوں میں اور جہری نمازوں میں بھی اس وقت جب مقتدی قراء ت کی آواز نہ سن رہا ہو تو امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے پر اسی آیت سے استدلال کیا ہے۔ تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ اور فتاویٰ مصریہ اور علّامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں حضرت ابن عباسؓ سے روایت نقل کرتے ہوئے لکھا ہے : یہاں ذکر سے مراد نماز میں قراء ت کرنا ہے۔ صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سری و جہری تمام نمازوں میں امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ کی قراء ت ثابت ہے جسکی نص ہم آثار صحابہؓکے ضمن میں ذکر کریںگے۔ علامہ ابن حزم نے المحلی میں اس ذکر کو نماز میں قراء ت کرنا ہی شمار کیا ہے اور ممکن ہے کہ کسی کے دل میں یہ خیال گزرے کہ شاید ذکر سے مراد ’’ ذکرِقلبی ‘‘ ہو تو یہ خیال بھی درست نہیں کیونکہ امام نوویؒ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب الاذکار میں لکھا ہے : یاد رہے کہ جو اذکار نماز و غیرہ میں مشروع ہیں وہ واجب ہیں یا مستحب ان کا اس وقت تک اعتبار نہ ہوگا جب تک ان میں اس انداز کا تلفظ نہ ہو جس میں خود اپنے آپ کو سنا سکے بشرطیکہ صحیح سننے پر قادر ہو اور کوئی عارضہ بھی اسے لاحق نہ ہو ۔ اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے بھی یہی بات کہی ہے بلکہ انھوں نے تو زبان کو حرکت دیئے بغیر نماز کو صحیح کہنے والے کے ارتداد کی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے : جو اس کے بغیر نماز کو صحیح کہے اس سے توبہ کرائی جائے ۔(مختصر الفتاویٰ المصریہ) اس تفصیل سے معلوم ہو اکہ اس آیت کے عموم سے بھی مقتدی کیلئے سورۂ فاتحہ کا پڑھنا واجب بنتا ہے، اس آیت سے استدلال پرواردہ اعتراضات کے تفصیلی جوابات کیلئے دیکھئے : توضیح الکلام۔ قرآنی آیات کے علاوہ قائلینِ قراء ت فاتحۃ خلف الامام ان کا استدلال بکثرت احادیث اور آثار صحابہؓ و تابعین ؒسے بھی ہے تو آیئے اُن احادیث کی بات کریں جنہیں و جوبِ قراء ت والے فریقِ اول نے اپنے دلائل بنایا ہے۔ اس سلسلہ میں پہلی حدیث وہ ہے جو صحیح بخاری و مسلم ، سنن اربعہ ، ابن حبان ، ابن خزیمہ ، مسند احمد ، دار قطنی ، مسند شافعی وحمیدی ، ایسے ہی سنن کبریٰ بیہقی ، دارمی ، ابی عوانہ ، کتاب القراء ۃ بیہقی ، طبرانی صغیر ، شرح السنہ اور جزء القراء ۃ امـام بخاری میں حضرت عبادہ بن صامت ؓسے مروی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا : جس نے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی اسکی نماز نہیں۔ جزء القراء ۃ میں امام بخاری نے لکھا ہے : اور نبی اکرم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ اس حدیث کے تحت علامہ کرمانی شرح البخاری میں لکھتے ہیں : اس حدیث میں اس بات کی دلیل پائی جاتی ہے کہ تمام ہی نمازوں میں سورۂ فاتحہ کا پڑھنا امام و مقتدی سب پر واجب ہے۔ علامہ قسطلانی نے اپنی شرح بخاری میں لکھا ہے کہ نبی نے جو فرمایا ہے کہ ’’ جو فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ‘‘ اس سے مراد ہے کہ ہر رکعت میں نمازی منفرد ہو ،امام ہو یا مقتدی اور امام جہری قراء ت کر رہا ہو یا سری۔
علامہ قسطانی نے آگے یہ بھی لکھا ہے : یہ جمہور کا مذہب ہے۔ اور آگے علامہ موصوف نے ایک جگہ لکھا ہے : مقتدی کیلئے کسی بھی قید و شرط کے بغیر سورۂ فاتحہ پڑھنے کی اجازت ثابت ہوگئی۔ اس حدیث پر حضرت امام بخاری نے یوں عنوان قائم کیا ہے : ( بَابُ وُجُوبِ الْقِرَائَ ِۃ لِلْاِمَامِ وَ الْمَأْمُوْمِ فِی الصَّلَوَاتِ کُلِّھَا فِیْ الْحَضَرِ وَ السَّفَرِ وَ مَا یُجْھَرُ فِیْھَا وَ مَا یُخَافِتُ ) اس بات کا بیان کہ امام و مقتدی سب کیلئے تمام نمازوں میں قراء ت (فاتحہ ) واجب ہے نماز حضر میں یا سفر میں اور قراء ت جہری ہو یا سری۔ امام ترمذی نے اپنی سنن میں اس حدیث کوروایت کرنے کے بعد لکھا ہے کہ مقتدی کے بھی سورۂ فاتحہ کو پڑھنے کا مذہب نبی اکرم کے اکثر صحابہ کرام ؓکا ہے ( جن میں سے ہی حضرت عمر فاروق ، علی ، جابر ، عمران بن حصین اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں ) اور امام ابن المبارک ، شافعی ، احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا بھی یہی مسلک ہے ۔ قراء تِ فاتحہ خلف الامام کے سلسلہ میں امام ترمذی نے یہ جو کہا ہے کہ نبی اکرم کے صحابہ کرامؓ اور تابعین رحمہم اللہ میں سے اکثر اہل علم کا عمل اسی پر تھا کہ امام کے پیچھے مقتدی بھی قراء ت کرے ۔بر یلوی مکتب فکر کے ایک مفتی احمد یاد بدایونی گجرات میں گزرے ہیں، وہ اپنی کتاب ’’ جاء الحق ‘‘ میںامام ترمذی کے اس قول کی عجیب عجیب تاویلات کرتے ہیں حتیٰ کہ اپنی بات کی تائید کیلئے قرآنِ کریم کی آیت میں بھی ردّ وبدل کردیا ہے جسکی تفصیل ہم اپنی کتاب نے مسئلہ رفع الیدین کے آخر میں ’’ چند نئی کا شوں کا تحقیقی جائزہ ‘‘ کے تحت اور ’’اندھی تقلید و تعصب میں تحریف کتاب و سنت ‘‘نامی کتاب میں ذکرکی ہے اور وہیں اس کتاب ’’ جاء الحق ‘‘ کا مختصر تعارف بھی گیا ہے ۔
علامہ بدر الدین عینی اپنی شرح بخاری،عمدۃ القاری میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے امام عبد اللہ بن مبارک ، اوزاعی ، مالک ، شافعی، احمد ، اسحاق ، ابو ثور اور داؤد نے تمام نمازوں میں امام کے پیچھے مقتدی کیلئے سورۂ فاتحہ پڑھنے کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ فرض اور واجب تمام محدثین اور جمہور ائمہ و فقہاء کے نزدیک یہ دونوں مترادف لفظ ہیں ،ان کے ما بین باہم کوئی فرق نہیں البتہ فقہائے احناف نے ان کے مابین کچھ فرق کیا ہے اور وہ بھی کوئی خاص عملی فرق نہیں محض نظری سا ہے ۔ علامہ ابو الحسن سندھی حنفی نے اپنے حاشیہ بخاری میں لکھا ہے : حق بات یہ ہے کہ حدیث اس نماز کے بطلان کا پتہ دیتی ہے جس میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی گئی ہو۔ اور دوسری جگہ لکھا ہے : یہ حدیث اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ اس نماز کے وجودِ شرعی کی ہی نفی ہوتی ہے کہ جس نماز میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی گئی ہو اوریہ نفی بعینہٖ صحتِ نماز کی نفی ہے۔یعنی وہ نماز صحیح نہیں ہوتی جس میں کوئی فاتحہ نہ پڑھے ۔