پاکستان میں گذشتہ چند برسوں سے عورت مارچ نے اپنے منفرد اور بعض افراد کے مطابق متنازع نعروں کی بدولت عوام اور میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ یوٹیوبرز کی بھی ایک بڑی تعداد کے لیے وائرل ہونے کا سامان پیدا کیا ہے۔
آٹھ مارچ کو لاہور میں عورت مارچ پریس کلب سے شروع ہوا لیکن اس دفعہ مارچ کے انتظامات کچھ غیر معمولی دکھائی دیے۔ پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد پریس کلب کے چاروں طرف نظر آئی۔
مارچ کے اندر داخل ہونے کے راستے میں بھی ان کے لیے چیکنگ کے لیے تین پوائنٹس بنائے گئے تھے۔ ابتدا میں مارچ کے شرکا سے زیادہ پولیس اہلکار اور ابھرتے ہوئے یوٹیوبرز نظر آئے۔
عورت مارچ نے رواں برس میڈیا کوریج کے حوالے سے کئی طرح کے اصول و ضوابط پہلے سے ہی طے کررکھے تھے۔ مارچ کی کوریج کے لیے باقاعدہ طور پر ایک آن لائن درخواست جمع کروائی جانا تھی جس کے بدلے میں میڈیا کوریج کا ایک کارڈ مارچ کے روز ہی جاری ہونا تھا۔
چنانچہ عورت مارچ کی کوریج کے لیے الگ سے ایک ڈیسک تھا۔ جہاں پر بڑی تعداد میڈیا سے وابستہ افراد اور اس سے بھی بڑی تعداد یوٹیوبرز کی نظر آئی۔
عام طور پر دیکھنے میں یہ لگ رہا تھا کہ یہ والے یوٹیوبرز ذرا نئے نویلے ہیں اور اپنے پیشرو یوٹیوبرز جو پچھلے کئی برسوں سے عورت مارچ سے شہرت حاصل کرچکے ہیں انہی کی ’روایات کو زندہ‘ کرنے پہنچے ہیں۔
ان افراد کو کارڈ نہیں دیے گئے جن کا اندراج یا رجسڑیشن پہلے سے موجود نہیں، یہیں سے ایک خاص طرح کی چپقلش ان یوٹیوبرز اور مارچ کے شرکا کے درمیان شروع ہوئی۔
مارچ کے شرکا کو سختی سے روکا گیا تھا کہ صرف انہی لوگوں کو انٹرویو دیں جن کے پاس کوریج کا کارڈ موجود ہو، یہی وجہ تھی کہ کئی نووارد یوٹیوبرز بہت زیادہ غصے اور خجالت میں نظر آئے۔
جگہ جگہ پر ایسے واقعات دیکھنے کو ملے جہاں یہ یوٹیوبرز مارچ کے شرکا سے الجھ رہے تھے اور انٹرویو نہ دینے پر مارچ کی انتظامیہ سے نالاں بھی تھے۔ اس بار لاہور میں عورت مارچ کے شرکا کی تعداد پچھلے سال کی نسبت کافی کم نظر آئی۔
پریس کلب سے عورت مارچ کے شرکا پیدل چلتے ہوئے پنجاب اسمبلی تک پہنچے جہاں پی آئی اے کے دفتر کے باہر پہلے سے ہی سٹیج بنایا گیا تھا۔ وہاں تک پہنچنے میں یوٹیوبرز اور مارچ کے شرکا کی نوک جھوک تو نظر آہی رہی تھی لیکن عورت مارچ کی انتظامیہ نے اس سے بڑھ کر بھی کئی انتظامات کررکھے تھے۔
جیسے ہی مارچ فلیٹیز ہوٹل کے پاس پہنچا تو سڑک کے ایک طرف درجن بھر پتلے نظر آئے۔ قریب جا کر غور سے دیکھا تو یہ کسی اور کے نہیں بلکہ سابق سینیئر یوٹیوبرز کے تھے جنہوں نے اپنے اپنے ویڈیو کلپس سے ماضی میں شہرت حاصل کی تھی۔
یہ مناظر نوجوان اور نئے یوٹیوبرز کے لیے چونکا دینے والے تھے۔ یہیں پر مارچ کے شرکا اور یوٹیوبرز کی فوج ظفر موج کے درمیان نوک جھوک اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ جب شرکا نے انٹرویوز کا مکمل بائیکاٹ کیا تو پھر انہوں نے اپنا کام شروع کردیا اور وی لاگز ریکارڈ کیے۔
دیکھتے ہی دیکھتے پولیس کی نفری مزید بڑھنا شروع ہوگئی اور اینٹی رائٹس فورس کو طلب کرلیا گیا۔ ایک مذہبی تنظیم کے کارکنان بھی درجنوں کی تعداد میں ایوان اقبال میں طرف سے عورت مارچ کے باہر پہنچ گئے اور ماحول میں خاصئ کشیدگی پیدا ہوگئی۔
اسی دوران سٹیج سے بار بار اس بات کا شکوہ بھی کیا جاتا رہا کہ یو ٹیوبرز شرکا کو ہراساں کررہے ہیں۔ کئی مرتبہ پولیس نے بھی یوٹیوبرز کو مارچ کے شرکا سے الگ کیا اور عورت مارچ نے شیڈول کے مطابق اپنا پروگرام مکمل کیا۔