عربی گانے اپنی زبان میں گا کر دل جیتتے والی ’جاپانی فیروز‘
جمعرات 10 مارچ 2022 15:50
کویوسا کا خیال ہے کہ عربی اور جاپانی کلچر کو ملانے سے ایک حسین امتزاج تشکیل پا سکتا ہے (فوٹو: نیہومی کوسایو، بلاگ سپاٹ )
جاپانی گلوکارہ نیہومی کویاسو اپنی زبان اور عربی کے ساتھ ملا کر اپنے ملک میں عالمِ عرب کی مقبول ترین گلوکارہ فیروز کی مثال بن گئی ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق ’فیروز الیابانیہ‘ یعنی جاپانی فیروز (نیہومی کوسایو) برسوں سے عربی گانے سنتی آ رہی ہیں۔ پہلے انہوں نے 1970 اور 1980 کی دہائی کے پاپ سونگز کا جاپانی زبان میں ترجمہ کرنا شروع کیا۔ پھر اوریجنل عربی میوزک کے ساتھ ان گانوں کو گایا۔
کویاسو کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے یونیورسٹی کے دنوں سے عربی انسٹرومینٹل میوزک اور گانے سننا شروع کر دیے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ دلچسپ احساس تھا۔ ان خوبصورت گانوں کا مطلب میرے لیے ناسٹلجیا اور سکون کے احساسات جیسا ہے۔‘
’آغاز میں تو میں جو سنتی اسے گنگنانے کی کوشش کرتی تھی اور پھر عربی کو جاپانی میں لکھنے کی کوشش کرتی تھی لیکن جلد مجھے اندازہ ہوا کہ عربی حروف تہجی عربی کے تلفظ کو پیش کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔‘
کویاسو نے اس کے بعد ٹوکیو میں ایک عربک اسلامی انسٹی ٹیوٹ میں پڑھنا شروع کیا تو وہ یہ جان کر حیران رہ گئیں کہ یہ دونوں زبانیں کس قدر مختلف ہیں۔
’ان دونوں زبانوں کے درمیان مشترک چیز صرف وہی جاپانی زبان تھی جو دوسری جنگ عظیم کے خاتمے سے کچھ پہلے تک دائیں سے بائیں جانب لکھی جاتی تھی۔ ورنہ جاپانی اور عربی کے لفظوں کی ترتیب اور تلفظ سب ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں۔‘
موسیقی کے ساتھ ان کا شغف کویاسو کو تیونس بھی لے گیا جہاں وہ پروفیسر تھیں۔ انہوں نے وہاں میوزک اور کلچر کے طلبہ کو پڑھایا۔
انہوں نے بتایا کہ ’بدقسمتی سے میں تیونس میں صرف تین ماہ ہی گزار پائی، 2010 کے جیسمین انقلاب کی وجہ سے مجھے وہ سب کچھ چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔‘
پھر کچھ مشق کے بعد وہ عربی گانے جاپانی میں گانے کے حوالے سے شہرت حاصل کرنے لگیں۔ کوسایو مقبول ٹی وی شو ’عرب آئیڈل‘ کے تیسرے سیزن کا حصہ بھی بنیں جس نے انہیں لیجنڈری لبنانی گلوکاری فیروز کے گانے گانے والی عربی گلوکارہ کے طور پر شہرت ملی۔
کویاسو کی دل میں یہ خواہش جاگی کہ وہ عربی گانے اپنے جاپانی ہم وطنوں تک پہنچائیں، سو انہوں نے ترجمہ شدہ یہ گانے گانا شروع کر دیا۔
’میں نے سوچا کہ شاید لوگ عربی گانے اس لیے نہیں سن پاتے کہ وہ انہیں سمجھتے نہیں۔ اس لیے میں اپنے پسندیدہ گانوں کو ترجمہ کیا۔ یہ میرے ملک میں سنے جانے والے جاپانی پاپ میوزیک اور مغربی موسیقی کے انداز کے مختلف اور منفرد تھے۔‘
کویاسو کو عربی گانوں کے ترجمے میں کافی وقت لگا کیونکہ وہ ان احساسات کو مکمل طور پر جاپانی زبان میں منتقل کرنا چاہتی تھیں جہیں ان میں بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے انہوں نے جاپانی زبان بولنے سمجھنے والے عربوں سے بھی سے بھی مشاورت کی اور ان کی رائے لی۔
کویوسا کا خیال ہے کہ عربی اور جاپانی کلچر کے ملانے سے ایک حسین امتزاج تشکیل پا سکتا ہے۔
’میں سمجھتی ہوں کہ جب لوگ ایک دوسرے کا احترام کریں گے اور ایک دوسرے کی ثقافت کے بارے میں متجسس ہوں گے تو یہ دلچسپ ہو گا۔ ثقافتی تبادلہ تنوع کو جاننے اور اسے سراہنے کا سبب بنتا ہے۔
وہ ایسے گانے گانا چاہتی ہیں جنہیں عالم عرب اور جاپان دونوں خطوں میں پذیرائی ملے۔
’میں عرب کلچر کو جاپان میں مزید بھی متعارف کرانا چاہتی ہوں، اس مقصد کو پانے کے لیے مجھے سعودی عرب میں رہ کر زیادہ سے زیادہ مقامی افراد سے روابط قائم کرنا ہوں گے۔‘