Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آپ نے ٹھیک کیا بابا‘ میانوالی کی نومولود مقتولہ کا خط

سات روزہ بیٹی کو قتل کرنے والے شخص کو پولیس نے بھکر سے گرفتار کیا (فوٹو: پنجاب پولیس)
السلام علیکم بابا!
امید ہے سب خیریت سے ہوں گے، میرے ننھے دل پر سِل سی پڑی ہے کچھ ان کہی باتوں کی، جب سے معلوم ہوا ہے کہ میں نے آ کے آپ کو پریشان کیا۔ سوچا تو یہی تھا رونے کی عمر سے نکل جاؤں تو توتلی زبان میں جی بھر کے باتیں کروں گی، سنا ہے دنیا میں باپ ہی بیٹی کی بات سب سے زیادہ غور سے سنتا ہے، سوری بابا آپ کو تو معلوم ہے نا کہ اس کا موقع ہی نہیں ملا، اس لیے لکھ کے بھیج رہی ہوں کہ سات روزہ زندگی میں، میں نے کیا دیکھا اور محسوس کیا۔
پہلے روز مجھے اپنی چیخوں میں کچھ اور سنائی نہیں دے رہا تھا، ذرا سا دم لیا تو ایک اور چیخ سنائی دی جو کسی اور کی تھی، احساس ہوا کہ کوئی عورت رو رہی ہے، جس کو سفید کپڑوں میں ملبوس خاتون دلاسہ دے رہی تھی ’کوئی بات نہیں اللہ کی مرضی‘
یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے کسی اور کے درد کا احساس ہوا، پھر سرگوشی سنی۔
’اس کے باپ کو پتہ نہ چلے‘ دوسری عورت نے کہا، ’ٹھیک ہے مگر کب تک‘ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔
پھر کسی نے کہا اس کو دودھ پلاؤ، اس کے بعد مجھے لگا کہ ساری دنیا کا سکون رگوں میں اتر رہا ہے، میں اپنا درد بھول گئی۔
اس کے بعد مجھے کپڑے میں لپیٹا گیا، کچھ مردوں کی آوازیں بھی سنائی دیں، کُھسر پُھسر ہو رہی تھی جو سمجھ میں نہیں آئی۔
پھر کسی نے کہا گھر چلتے ہیں۔ میں ایک نئی جگہ پہنچی جہاں کئی چہرے دکھائی دیے، جن میں سے ایک نوجوان عورت کا تھا، جانے کیوں جیسے ہی وہ میری طرف دیکھتی، رونا شروع کر دیتی۔
کچھ لوگ میری آؤ بھگت میں لگے تھے کہ ایک تیز سی آواز سنائی دی ’میں نے تمہیں کہا تھا نا کہ اگر ۔۔۔۔۔‘

میانوالی میں باپ بیٹی پیدا ہونے پر ناخوش تھا (فوٹو: اے ایف پی)

’چپ کرو سب ہیں یہاں پہ، اس میں میرا کیا قصور ہے‘ سمجھ نہیں آ رہی تھی کیا چل رہا ہے۔
پھر کافی دیر کے لیے خاموشی چھا گئی، جس سے مجھے گُھٹن ہونے لگی، مجھے لگا یہ خاموشی جونک کی طرح کانوں کے پردے پر رینگ رہی ہے، میں نے اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا، جس پر مردانہ آواز ابھری، ’چپ کراؤ اسے‘
مجھے پھر وہی چیز دی گئی جو مجھے سرشار کر دیتی، میرے ساتھ لیٹی وہی نوجوان عورت کبھی میری طرف دیکھتی اور کبھی منہ دوسری طرف کر لیتی، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ خود کو رونے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اسی ادھیر بُن میں میری آنکھ لگ گئی، اور ایک تیز سی آواز سے کھلی، کوئی عورت کو کہہ رہا تھا ’میں نے کہا تھا نا کہ مجھے بیٹا چاہیے۔‘
یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے غصے میں میری طرف اشارہ کرتے ہوئے دیکھا، میں اسے دیکھ کے حیران رہ گئی وہ بہت خوبصورت آدمی تھا، صاف کپڑے پہنے ہوئے، میں نے سوچا کہ یہ اب مجھے اٹھا لے گا مگر شاید یہ وہ خواہش تھی جس کی منزل حسرت کی ڈھلوان ہوتی ہے۔
پہلا روز اسی طرح روتے، سوتے جاگتے گزرا۔
اگلے روز نے کچھ باتیں کھول دیں، بار بار یہی بات ہو رہی تھی کہ جانے اب کیا ہو گا، اس کا باپ تو بیٹی کے خلاف ہے۔
تیسرے روز لوگ گھر آتے رہے مگر مجھے زیادہ فکر اس چیز کی رہتی جس سے مجھے سکون ملتا تھا، اتنا تو سمجھ گئی تھی کہ وہ تب ملے گی جب چیخیں ماری جائیں گی، اس لیے میں ہر تھوڑی دیر بعد زور زور سے رونا شروع کر دیتی۔
چوتھے روز مجھے کچھ کچھ احساس ہونا شروع ہوا کہ شاید یہ جھگڑا میری وجہ سے ہی ہے، میں نے سوچا کہ آخر میں نے کیا کیا ہے، کوئی وجہ میری سمجھ میں نہیں آئی۔
پانچویں روز پتہ چلا کہ پریشان عورت میری ماں اور آپ میرے بابا ہو، میں نے سنا کہ آپ کہہ رہے تھے، ’میں اس کو جان سے مار دوں گا‘ جس پر ماں کی دبی سی چیخ نے میرا دل دہلا دیا۔
چھٹے روز ماں نے کوشش کی کہ مجھے کوئی لے جائے لیکن نہ میرا دل یہ چاہتا تھا اور نہ اس کا، وہ کبھی روتی، کبھی میرا منہ چومتی، کبھی دھکا دے دیتی، کبھی کہتی ’تجھے ضرورت ہی کیا تھی ہمارے ہاں آنے کی، کہیں اور کیوں نہیں چلی گئی۔‘
اور پھر وہ ساتواں روز آیا بابا جب آپ کمرے میں آئے، آپ نے ایک بار پھر مجھے دیکھا، میں نے اپنی طرف سے ہنس کے آپ کے ماتھے کی سلوٹیں دور کرنے کی کوشش بھی کی، میرا خیال تھا کہ آپ ابھی مسکرا کر مجھے اٹھا لیں گے، معلوم نہیں تھا کہ ’اٹھانے‘ کے ارادے سے ہی آئے ہیں۔
ماں کمرے سے باہر گئی، شاید کسی کام سے، تو آپ میرے جھولے کے قریب آئے یہ پہلا موقع تھا کہ آپ نے غور سے مجھے دیکھا، پھر مجھے آپ کے ہاتھ میں کوئی چیز دکھائی دی، مجھے یاد آیا کہ بابا بچوں کے کھلونے لاتے ہیں، میں نے ہاتھ پاؤں چلائے کہ وہ مجھے مل جائے، مگر آپ نے دانت بھینچ کر اس کا رخ میری طرف کر دیا۔
ٹھائیں کی آواز کے ساتھ ہی ایک دہکتی سی سلاخ جسم میں اترتی محسوس ہوئی، میں نے رونے کی کوشش کی تو ایک اور سلاخ اتری، میری چیخ حلق میں پھنس گئی، میں نے سوچا کہ کاش ماں اندر آ کے پھر مجھے وہی امرت دے دے، لیکن آج تو شاید نسوں میں باردو اترنے کا دن تھا، پھر ایک اور، پھر ایک اور، میری چیخ لبوں سے نکلنے ہی والی تھی کہ ایک اور چیخ سنائی دی، ویسی ہی جیسی ہسپتال میں سنی تھی، شاید ماں اندر آ گئی تھی۔
اس کے بعد ٹھیک سے یاد نہیں کہ کیا ہوا، کچھ عجیب عجیب سی آوازیں سنائی دیتی رہیں، پھر اس وقت کچھ احساس ہوا کہ شاید مجھے نہلایا جا رہا ہے۔

’بابا سنا ہے بیٹی کی بات دنیا میں سب سے زیادہ غور سے سنتا ہے‘ (فوٹو: سوشل میڈیا)

مجھے اپنا پہلا روز یاد آ گیا اور سمجھی کہ اس کے بعد بھی ویسا ہی ہو گا، مجھے پینے کو میری پسندیدہ چیز ملے گی لیکن ایسا نہیں ہوا، مجھے کسی کپڑے میں لپیٹ دیا گیا اور پھر اپنے اوپر کچھ گرنے کی آوازیں سنتی رہی، مٹی تھی شاید
یہاں مجھے کچھ بچوں نے بتایا ہے کہ مجھے آپ نے مار دیا تھا کیونکہ میں لڑکی تھی، تو مجھے حیرت ہوئی بابا کہ اس میں میری کیا غلطی تھی۔
پھر کسی نے بتایا کہ آپ کا خیال ہو گا کہ میں بڑی ہوں گی، تو آپ کی عزت کے لیے خظرہ بنوں گی، بڑا ہونا بری بات ہے کیا بابا، امی بھی تو بڑی ہوئی تھیں، ہاں میری دادی آپ کی ماں، جو مجھے بہت پیار کرتی تھیں، وہ بھی تو بڑی ہوئی تھیں۔
بابا تھوڑی سی ناراضی ہے آپ سے، میں بڑی ہو کے آپ کی عزت میں اضافے کا باعث بھی تو بن سکتی تھی، یہ تو آپ کی تربیت پر تھا نا۔
یہاں مجھے ایک اور بچی، جس کا نام زینب ہے، نے بتایا کہ دنیا میں بچیوں کے ساتھ کیا کچھ ہوتا ہے تو میں ڈر گئی، لیکن بابا اگر آپ میرا ساتھ دیتے تو مجھے کیا پرواہ تھی، ایسی کی تیسی دنیا کی۔
بابا مجھے ماں نہیں بھولتی، جن کی میں نے باتیں کم اور سسکیاں زیادہ سنیں، کاش وہ مجھے ایک بار کَس کے سینے سے لگائیں۔

سات سالہ زینب کو قصور میں زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا (فائل فوٹو)

مجھے کسی نے یہ بھی بتایا کہ ماں بھی پہلے بچی تھی جو بڑی ہوئی تو پورے خاندان کی غیرت ان کے ڈوپٹے کے پلو کے ساتھ بندھی تھی، پتہ نہیں کس نے باندھ دی تھی بابا، حالانکہ ان کے بھائی بھی تھے، مگر ان سے خاندان کو کوئی خطرہ نہیں تھا اور پھر ایک روز ان کی آپ سے شادی ہوئی۔
کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ میں بھی بڑی ہوتی تو شاید آپ کے لیے مسائل کا باعث بنتی اور ایک روز میری شادی کرانا پڑتی، ماں بننے کا موقع آتا تو شاید میرے ساتھ بھی وہی ہوتا جو میری لاچار ماں کے ساتھ ہوا، جو کھل کر میرا دفاع بھی نہ کر پائی۔
آپ کا بہت شکریہ بابا کہ آپ نے مجھے ایسی اذیت ناک زندگی سے بچا لیا، آپ نے ٹھیک کیا بابا۔
باپ تو باپ ہوتا ہے نا، اب دیکھو نا میں سات دن کی تھی، پھر بھی آپ نے مجھے پانچ گولیاں ماریں، آپ کے پیار کے احساس کے لیے دو گولیوں کی یہ رعایت ہی کافی ہے۔
والسلام بابا

شیئر: