Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صحافی کو انٹرویو ڈیلیٹ کرنے کے لیے کہا: کنول شوزب

کنول شوزب نے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے اینکرپرسن کو انٹرویو ڈیلیٹ کرنے کو کہا۔ (تصویر: فیس بک)
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ممبر قومی اسمبلی کنول شوزب کا کہنا ہے کہ انہوں نے اینکرپرسن بتول راجپوت کو اپنا ریکارڈ کیا گیا انٹرویو ڈیلیٹ کرنے کے لیے اس لیے کہا تھا کیونکہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنے کیس کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہتی تھیں۔
واضح رہے جمعے کو متعدد پاکستانی صحافیوں کی جانب سے ٹوئٹر پر دعویٰ کیا گیا تھا کہ کنول شوزب نے اپنے گھر انٹرویو کرنے آنے والی پاکستانی اینکرپرسن بتول راجپوت کو حبس بے جا میں رکھا اور ان سے انٹرویو ڈیلیٹ کرنے کے لیے کہا۔
معروف صحافی حامد میر نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’مجھے ابھی صحافی بتول راجپوت کی طرف سے ایک پیغام موصول ہوا ہے، انہوں نے مجھے بتایا کہ پی ٹی آئی ایم این اے کنول شوزب نے انہیں اپنے گھر میں حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے اور وہ ان سے وہ انٹرویو ڈیلیٹ کرنے کے لیے کہہ رہی ہیں جو انہوں نے چند منٹوں پہلے ریکارڈ کیا تھا۔‘
صحافی زاہد گشکوری نے بھی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ بتول راجپوت نے انہیں بتایا کہ ’کنول مجھے جانے نہیں دے رہیں۔ وہ کہہ رہی ہیں کہ انٹرویو ڈیلیٹ کرو اور پھر جاؤ۔‘

تاہم کنول شوزب نے ان الزامات کی تردید کر دی ہے۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ انہوں نے بتول راجپوت کو اپنے معاملے پر انٹرویو دینے کی اجازت دی تھی لیکن انہوں نے ’خواتین صحافیوں کی مظلومیت‘ اور ’سوشل میڈیا کے مسائل‘ پر سوالات کیے۔
کنول شوزب کا کہنا ہے کہ ’تبھی میں نے مزید سوالوں کے جواب دینے سے منع کیا اور جو ریکارڈنگ کی تھی وہ بھی ڈیلیٹ کرنے کا کہا کیونکہ میں اپنا معاملہ سیاسی نہیں بنانا چاہتی تھی۔‘

واضح رہے کنول شوزب نے لاہور کے ایک سوشل میڈیا صارف کے خلاف نازیبا تبصرے کرنے پر ایف آئی اے میں شکایت درج کرائی تھی۔ اسی معاملے پر گذشتہ دنوں انہوں نے اسلام آباد ہائی سے بھی رجوع کیا تھا۔
بتول راجپوت کا اس حوالے سے ایک ویڈیو بیان میں کہنا تھا کہ ’ہم نے کنول شوزب صاحبہ کا ایک انٹرویو لائن اپ کیا تھا، بہت تمیز سے انٹرویو چل رہا تھا، آخری دو منٹ میں انہیں ایک سوال پسند نہیں آیا۔‘
’وہ سوال یہ تھا کہ میں نے انہیں کہا کہ جس طرح سے آپ کو ہراساں کیا جاتا ہے وہ نہیں ہونا چاہیے، یہی ہراسمنٹ جب پی ٹی آئی کے آفیشل اکاؤنٹ سے، دوسری جماعتوں کے اکاؤنٹ سے صحافیوں کو کیا جاتا ہے تو کیا آپ اس کی بھی مذمت کریں گی؟‘
 

شیئر: