Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بڑا سرپرائز، ایم کیو ایم اور اپوزیشن میں معاہدہ، تفصیلات کا اعلان آج

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ٹویٹ کیا کہ مبارک ہو پاکستان( فوٹو ٹوئٹر)
متحدہ اپوزیشن اور متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) پاکستان کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے۔ باضابطہ اعلان بدھ کی شام چار بجے اسلام آباد میں متوقع ہے۔
ایم کیو ایم کے رہنما سینیٹرفیصل سبز واری نے رات گئے ٹویٹ کی کہ ’متحدہ اپوزیشن اور ایم کیو ایم کے درمیان معاہدے نے حتمی شکل اختیار کر لی ہے‘۔
’پیپلز پارٹی کی سی ای سی، ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی جانب سے مجوزہ معاہدے کی توثیق کے بعد اس کی تفصیلات سے بدھ کی شام چار بجے باضابطہ میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا‘۔
پیپلزپارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے بھی معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ’ بدھ کی شام پریس کانفرنس میں تفصیلات سامنے لائی جائیں گی‘۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ٹویٹ کیا کہ ’متحدہ اپوزیشن اور ایم کیوایم کے درمیان معاہدہ ہوچکا ہے، ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی اور پی پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی مذکورہ معاہدے کی توثیق کریں گے، جس کے بعد ہم کل میڈیا کو پریس کانفرنس میں تفصیلات بتائیں گے‘۔
مبارک ہو پاکستان
جے یو آئی ف کے امیر اور پی ڈی ایم کے سربراہ نے پارلیمنٹ لاجز سے روانگی سے قبل میڈیا کے ایک سوال پر تصدیق کی کہ ایم کیو ایم سے معاہدہ طے پا گیا ہے۔
مسلم لیگ ( ن) کے رہنما اور قومی اسمبلی کے رکن خواجہ سعد رفیق نے ٹویٹ کی کہ ’الحمد للّٰہ متحدہ اپوزیشن اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے درمیان معاہدہ نے حتمی شکل اختیار کر لی ہے‘۔
’پیپلز پارٹی کی سی ای سی اور ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی مجوزہ معاہدے کی توثیق کے بعد اس کی تفصیلات سے بدھ کی شام چار بجے باضابطہ میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا‘۔
پیپلزپارٹی کی رہنما اور رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے ٹویٹ کیا کہ ’گیم اوورعمران خان‘
ٹی وی رپورٹ کے مطابق ایم کیو ایم اور اپوزیشن کے درمیان ایک ڈرافٹ تیار کیا گیا ہے جس پر دستخط رات گئے پارلیمنٹ لاجز میں کیے گئے۔
 یہ ڈرافٹ مرتضی وہاب نے تیار کیا ہے۔
قبل ازیں حتمی مذاکرات میں ایم کیو ایم کی طرف سے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، عامر خان، وسیم اختر، کنور نوید جمیل، امین الحق، فیصل سبز واری اور خواجہ اظہار الحسن شریک رہے۔
اپوزیشن کے وفد میں خواجہ آصفج نوید قمر، شیری رحمان، مراد علی شاہ، مرتضی وہاب، سعید غنی، خواجہ سعد رفیق، اختر مینگل ، ایاز صادق اور دیگر رہنما شامل تھے۔
بعدازاں معاہدے پردستخط کے لیے اپوزیشن کے رہمنا آصف علی زرداری، شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری اورمولانا فضل الرحمن رات گئے پارلیمنٹ لاجز پہنچے۔
حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے ساتھ منگل کو رات گئے معاہدہ طے پانے کے بعد اپوزیشن نے بڑا سرپرائز دیا ہے، اسے نمبر گیم میں حکومت پر برتری حاصل ہو گئی ہے۔
ایم کیو ایم کی حمایت ملنے کی صورت میں اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کے لیے درکار 172 ووٹوں سے زائد ارکان کی حمایت حاصل ہوجائے گی جبکہ حکومت کے نمبر 164 رہ جائیں گے۔
یوں اپوزیشن اتحاد کو پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے ووٹوں کی ضرورت بھی نہیں رہے گی اور ایوان میں وزیراعظم اپنی اکثریت کھو دیں گے۔  

 ایم کیو ایم کے قومی اسمبلی میں7 ووٹ ہیں (فوٹو ٹوئٹر)

 ایم کیو ایم کے قومی اسمبلی میں7 ووٹ ہیں جبکہ اپوزیشن کو ایک اور اتحادی بلوچستان عوامی پارٹی اور آزاد ارکان کی حمایت کے بعد  پہلے ہی 169 ووٹ حاصل تھے۔ اس طرح اپوزیشن ارکان کی تعداد 177 تک پہنچ جائے گی۔
یاد رہے کہ سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کے بعد حتمی معرکے کے لیے دنوں کی گنتی شروع ہو چکی ہے اور حکومتی اتحادیوں نے بھی  اپنے اعلانات مکمل کر دیے ہیں۔
مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی کے حکومت اور اپوزیشن کی حمایت کے فیصلوں کے بعد اب سیاسی دنگل کا تمام تر دارومدار کراچی سے حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پر تھا۔
اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس ایک درجن سے زائد منحرف ارکان کی حمایت موجود ہے اور کئی ارکان کھل کر بھی اپوزیشن کی حمایت میں سامنے آ چکے ہیں مگر سپریم کورٹ میں منحرف ارکان کی عارضی یا تاحیات نااہلی کی وضاحت کے لیے حکومتی ریفرنس زیر سماعت ہے جس کے باعث کئی منحرف ارکان خوفزدہ ہیں کہ ان کے ووٹ کے باعث کہیں ان کا سیاسی کیریئر ہی ختم نہ ہو جائے۔
اسی وجہ سے ایم کیو ایم جیسی اتحادی کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ اپوزیشن اور حکومت سر توڑ کوشش میں تھے کہ ایم کیو ایم کی حمایت حاصل کر کے اپنی برتری کو حتمی کر لیا جائے۔
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران تقریبا روزانہ کی بنیاد پر حکومت اور اپوزیشن کے وفود ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
پیر کو بھی سینیئر حکومتی وزرا کی ایک ٹیم نے ایم کیو ایم سے ملاقات کی اور دعویٰ کیا کہ بات چیت حتمی مراحل میں داخل ہو گئی ہے۔ تاہم اس کے بعد اپوزیشن رہنماوں کی ملاقات کے بات حتمی فیصلہ سامنے آیا ہے۔

شیئر: