اقتصادی امور کے ماہر عثمان حمیم کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی غربت، آمدنی میں کمی اور قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے لوگوں کے لیے اس رمضان اپنے خاندانوں کو خوراک فراہم کرنا آسان کام نہیں۔
کابل پر قبضے کے بعد طالبان کی عبوری حکومت کو غیرملکی ذخائر تک رسائی نہیں۔ حکومت نے کہا ہے کہ وہ رمضان کے دوران ضرورت مند افراد کی مدد کرے گی۔
طالبان کے ڈپٹی ترجمان بلال کریمی کا کہنا ہے کہ جبر، کرپشن اور غاصبانہ قبضے کا دور ختم ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ملک کی معاشی ترقی کے لیے حکومت کے پاس منصوبے ہیں اور ہمسایہ اور دیگر ممالک کے ساتھ بات چیت بھی کر رہی ہے۔‘
افغانوں کو امید ہے کہ ان کے ساتھ امداد کا وعدہ پورا کیا جائے گا۔ وہ اس مہینے امن کی امید بھی کر رہے ہیں۔
جون 2017 میں ماہ رمضان کے دوران کابل میں ایک بدترین حملہ ہوا تھا جس میں 150 افراد ہلاک اور تین سو زیادہ زخمی ہوئے تھے۔
رواں برس رمضان کے پہلے دن بھی کابل میں کرنسی کے لین دین کے ایک مرکز میں بم دھماکہ ہوا جس میں ایک شخص ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہوئے۔
اس کے باوجود میرویس عزیزی مطمئن ہیں کہ کابل کی سکیورٹی میں بہتری آئی ہے۔
’اب بھی کابل اور دیگر شہروں میں چھوٹے چھوٹے واقعات ہوتے ہیں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ماضی کی طرح روزانہ کی بنیاد پر دھماکے اور عسکریت پسندوں کے حملے نہیں دیکھ رہے۔‘
قندھار میں ایک امدادی کارکن احمد شاہ نیک زاد کا کہنا ہے کہ ملک میں سکیورٹی بہتر ہونے کی وجہ سے وہ اب دوردراز علاقوں کا سفر کر سکتے ہیں۔
تاہم انہوں نے بتایا کہ اس رمضان میں لوگوں کو کھانا کھلانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
’زیادہ سے زیادہ لوگ روزانہ مدد چاہتے ہیں لیکن ہم سب تک پہنچ نہیں پا رہے۔ یہ رمضان لاکھوں افغانوں کے لیے مشکل ہوگا۔‘