افغانستان کی روایتی ٹوپیاں، جو پہننے والے کا تعارف کرا دیتی ہیں
افغانستان کی روایتی ٹوپیاں، جو پہننے والے کا تعارف کرا دیتی ہیں
جمعرات 17 مارچ 2022 8:05
افغانستان کے مختلف علاقوں میں منفرد سٹائل کی ٹوپیاں پہنی جاتی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
وسطی اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع افغانستان صدیوں سے مختلف ثقافتوں اور نسلوں کے ملاپ کا ذریعہ رہا ہے جس کا اظہار یہاں کے لوگوں کے لباس اور خصوصاً سر کے پہناووں سے بھی ہوتا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ٹوپی یا پگڑی پہننے والے کے سٹیٹس کو متعارف کرتی ہے جبکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ اس کا تعلق ملک کے کس حصے اور نسل سے ہے۔
یہاں پہنی جانے والی ٹوپیوں میں ایک ازبک ٹوپی بھی ہے جو گول اور چپٹی ہوتی ہے یہ ڈھیلی ڈھالی نہیں بلکہ ٹائٹ ہوتی ہے، اس پر مختلف رنگوں کی کشیدہ کاری کی جاتی ہے۔ یہ ٹوپی افغانستان کے جنوبی علاقوں جیسے مزار شریف، فریاب اور جازجان وغیرہ میں بہت مقبول ہے۔
پشتون افغانستان میں سب سے زیادہ تعداد میں موجود ہیں اور سخت گیر اسلامک گروپ کے زیادہ لوگوں کا تعلق بھی انہی سے ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر سادہ کالی پگڑیاں پہنتے ہیں جن کو ایک ٹوپی کے گرد لپیٹا گیا ہوتا ہے جبکہ پگڑی سے باہر نکلا کپڑے کا کچھ حصہ کندھے پر جھولتا ہے۔
افغانستان کے دیہات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ جب ایک پشتون لڑکا پگڑی باندھتا ہے تو اس کو مردانگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
جنوبی قندھار میں نوجوان ایسی نرم ٹوپیاں پہنتے ہیں جو ماتھے کے مقام پر دو شاخہ ہوتی ہیں جبکہ بڑی عمر کے لوگ پگڑی پہننے کو ترجیح دیتے ہیں۔
افغانستان کے علاقوں خصوصاً ہرات میں خواتین بھی کشیدہ کاری پر مشتمل ٹوپیاں پہنتی ہیں، یہ چادر کے نیچے بھی پہنی جاتی ہیں اور اکثر اوقات اوپر بھی پہنی جاتی ہے۔
اسی طرح ٹوپی کی ایک قسم پکول بھی ہے جو زیادہ تر تاجک لوگ پہنتے ہیں، یہ بھیڑ کی اون سے بنی ہوتی ہے جبکہ اس کے کنارے موٹی تہہ کے ساتھ لپیٹے گئے ہوتے ہیں۔ پکول سردی سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
یہ ٹوپی طالبان مخالف احمد شاہ مسعود کی مخصوص علامت کے طور پر بھی سامنے آئی ہے۔ وہ اسے ایک مخصوص انداز میں سر کے پچھلے حصے پر پہنتے تھے جبکہ وادی پنجشیر میں ان کے گروپ سے تعلق رکھنے والے جنگجو بھی اس کو استعمال کرتے تھے۔
افغانستان میں شادیوں کے موقع ان ٹوپیوں سے ہٹ کر سر کے کچھ اور پہناوے بھی سامنے آتے ہیں جیسا کہ گلگتی ٹوپی، جو دولہوں کو پہنائی جاتی ہے۔ یہ پکول سے مشابہہ ہوتی ہے، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ ماتھے کی جگہ اس میں ایک پنکھ لگایا گیا ہوتا ہے۔
اسی طرح افغانستان کی قدیم ترین ٹوپیوں میں قراقلی ٹوپی بھی شامل ہے، جس کو وہاں مقامی طور پر قراقل کہا جاتا ہے۔ اس کو نومولو بھیڑے کے بچے کی کھال اور اون سے بنایا جاتا ہے، اس ٹوپی کو پاکستان میں جناح کیپ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور اس لیے بھی مشہور ہے کہ پاکستان کے بانی محمد علی جناح اس کو پہنا کرتے تھے۔
سابق صدر حامد کرزئی کی جانب سے استعمال کے بعد قراقلی ٹوپی کو افغانستان میں مزید پذیرائی ملی۔