Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں سیاسی اختلافات خونی جھگڑوں کی شکل اختیار کررہے ہیں؟

پی ٹی آئی حکومت ختم ہونے کے بعد ملک کے مختلف حصوں سے سیاسی تصادم کے واقعات رپورٹ ہوئے (فوٹو: حطار پولیس)
پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کے بعد جہاں سابق حکمراں جماعت کی قیادت اور کارکن اس پر احتجاج کر رہے ہیں وہیں عوامی سطح پر یہ معاملہ خونی جھگڑوں کی شکل اختیار کررہا ہے۔
10 اور 11 اپریل کی درمیانی شب قومی اسبملی میں عدم اعتماد پر ووٹنگ کے بعد عمران خان کی وزارت عظمیٰ ختم ہوئی اور اگلے روز اپوزیشن اتحاد کے امیدوار اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے ملک کے 23 ویں وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔
پیر کی شام جہاں سوشل ٹائم لائنز پر تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج کی خبریں سامنے آنا شروع ہوئیں وہیں سیاسی جماعتوں کے کارکنوں میں جھگڑے کی خبریں بھی رپورٹ ہونا شروع ہوئیں۔
خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر دیر سے سامنے آنے والی ویڈیوز اور تصاویر سے متعلق دعوی کیا گیا کہ پی ٹی آئی کارکنوں نے احتجاج کے دوران مقامی مسجد میں موجود افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا۔

تیمرگرہ میں پیش آنے والے اس واقعے کو جہاں جمعیت علمائے اسلام اور پی ٹی آئی کارکنوں کا جھگڑا بتایا گیا وہیں اسے عدم برداشت کی پریشان کن صورت حال بھی قرار دیا گیا۔

اسی علاقے سے ایک اور خبر آئی کہ سوشل میڈیا پر مخالفانہ کمنٹس سے شروع ہونے والے تنازعے نے جھگڑے کی صورت اختیار کرلی۔ فائرنگ ہوئی جس میں دو افراد زخمی ہوگئے۔

ان دونوں واقعات کا تذکرہ ابھی ٹھنڈا نہیں پڑا تھا کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے متصل ہری پور کے علاقے حطار میں ایک فیکٹری میں تکرار کے بعد جھگڑے میں ایک شخص کی ہلاکت کی اطلاعات سامنے آگئیں۔
واقعے کی تفصیل شیئر کرنے والوں نے دعویٰ کیا کہ بیٹریاں بنانے والی فیکٹری میں کام کرنے والے دو افراد کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے بعد ایک نے دوسرے کو لکڑی سے مارا، مضروب کو ہسپتال پہنچانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ جانبر نہ ہو سکا اور انتقال کرگیا۔

اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے حطار پولیس سٹیشن کے محرر کا کہنا تھا کہ ’یہ معاملہ 12 اپریل کی شام کا ہے، بحث کی وجہ سیاسی گفتگو نہیں تھی، دونوں افراد کے درمیان عام بحث ہوئی جو جھگڑے کی وجہ بنی اور مضروب بعد میں انتقال کرگیا۔‘
دوسری جانب مقامی پولیس کی جانب سے جاری کردہ معلومات میں کہا گیا ہے کہ ’قتل کرنے والے ملزم عتیق کو گرفتار کرلیا ہے۔‘

منگل کی شام سوشل میڈیا پر اسلام آباد کے ایک نجی ہوٹل میں افطار کے وقت ہونے والے جھگڑے کی ویڈیوز بھی شیئر کی گئیں۔
یہ ویڈیوز شیئر کرنے والوں کا دعویٰ تھا کہ ایک بزرگ شہری نے وہاں موجود پی ٹی آئی کے منحرف رکن نور عالم خان پر آوازیں کسیں، جس کے بعد پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر، ندیم افضل چن اور دیگر نے بزرگ سے مار پیٹ کی۔
نجی نیوز چینل نیو نیوز کے میزبان نصراللہ ملک کو سیاسی پروگرام کی کوریج کے دوران پی ٹی آئی کارکنوں نے گھیر لیا۔ اس موقع پر جہاں ان کے خلاف نعرے لگائے گئے وہیں بحث کے دوران انہیں شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
موقع پر موجود افراد نے جذباتی کارکنوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی تاہم ٹیلی ویژن میزبان کے خلاف نعرے لگانے اور ہوٹنگ کا سلسلہ جاری رہا۔
سوشل میڈیا پر مخالف سیاسی کارکنوں کے درمیان بحث اور اس کے جھگڑوں میں بدلنے کی اطلاعات کے دوران مسلم لیگ ن کے رہنما عطااللہ تارڑ کی ایک ویڈیو شیئر کی گئی۔
ویڈیو میں ن لیگی رہنما یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ ’اگر کسی نے گالی نکالی، نعرہ لگایا، آوازیں کسیں تو وہی ہو گا جو کل میریٹ میں ہوا ہے۔‘
اس بیان پر جہاں مسلم لیگ ن کے حامی دکھائی دینے والے ٹویپس نے عطااللہ تارڑ کی تعریف کی اور اس حکمت عملی کا درست قرار دیا، وہیں پی ٹی آئی کے حامی ٹویپس ان کے انداز کی مذمت کرتے رہے۔
سیاسی کارکنوں میں بحث کے جھگڑوں میں بدلنے کو کسی نے عدم برداشت قرار دیا تو کوئی گذشتہ برسوں میں سیاسی رہنماؤں کی جانب سے مخالفین کے خلاف اپنائے گئے رویے کا نتیجہ کہتا رہا۔

سیاسی تصادم کے واقعات کا ذکر کرنے والے ٹویپس نے دوسروں کو سوچنے کی دعوت دی تو سوال کیا کہ ہمارا معاشرہ انتہاپسند کیوں بنتا جا رہا ہے؟

شیئر: