ڈپٹی سپیکر نے پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کے استعفے کیوں منظور کیے؟
ڈپٹی سپیکر نے پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کے استعفے کیوں منظور کیے؟
جمعرات 14 اپریل 2022 18:24
بشیر چوہدری -اردو نیوز، اسلام آباد
قائم مقام سپیکر نے تحریک انصاف کے 123 ارکان کے استعفے منظور کر لیے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
قائم مقام سپیکر قاسم سوری کا قومی اسمبلی کے اجلاس کی تاریخ تبدیل کرنے کا اقدام ہائی کورٹ میں چیلنج ہونے کے بعد عدالت نے پٹیشن جمعے کو سماعت کے لیے مقرر کردی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل لارجر بینچ جمعے کو ن لیگ کے رکن قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کی سماعت کرے گا۔
درخواست میں کہا گیا کہ ڈپٹی سپیکر کا جاری کردہ 13 اپریل کا سرکلر جس میں اجلاس 22 اپریل تک ملتوی کیا گیا آئین سے متصادم ہے۔ قائم مقام سپیکر کو قومی اسمبلی کے سپیکر کے الیکشن کے لیے فوری اجلاس بلانے کی ہدایت کی جائے۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ سیکریٹری پارلیمانی امور اور سیکریٹری اسمبلی کو 16 اپریل کو اجلاس بلانے کی ہدایت کی جائے اور ڈپٹی سپیکر کو قومی اسمبلی کے سپیکر کے اختیارات استعمال کرنے سے روکا جائے۔
درخواست میں ڈپٹی سپیکر قاسم سوری، سیکریٹری پارلیمانی امور اور سیکریٹری اسمبلی کو فریق بنایا گیا ہے۔
ڈپٹی سپیکر اجلاس تاخیر سے کیوں چاہتے ہیں؟
پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں نے اپنے استعفے بھی شیئر کیے تھے۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ نہ صرف منحرف ارکان بلکہ مزید بھی کچھ ارکان نے استعفے نہیں دیے۔
اردو نیوز سے گفتگو میں قائم مقام سپیکر قاسم سوری نے کہا تھا کہ وہ ارکان کے استعفے خود منظور کریں گے۔
قومی اسمبلی سیکرٹریٹ سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق قائم مقام سپیکر نے تحریک انصاف کے 123 ارکان کے استعفے منظور کر لیے اور ان کی نشستیں خالی قرار دینے کے لیے گزٹ نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن کو بھیج دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 155 ہے جس میں 20 منحرف ارکان کے علاوہ 12 دیگر ارکان نے بھی استعفیٰ نہیں دیا جن میں ایک ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری بھی شامل ہیں۔
قومی اسمبلی حکام کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر سیکرٹریٹ حکام کی جانب سے قائم مقام سپیکر کو آگاہ کیا گیا تھا کہ تمام ارکان کو فرداً فرداً بلا کر استعفوں اور دستخطوں کی تصدیق قانونی تقاضا ہے۔
تاہم انھوں نے حکام کی یہ دلیل مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سب نے ایوان میں کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا اس لیے فرداً فرداً تصدیق کی ضرورت نہیں۔
حکام کے مطابق ڈپٹی سپیکر نے اجلاس کی تاریخ میں توسیع بھی اسی لیے کی کہ وہ بقیہ ارکان کے استعفوں کے منتظر تھے۔ تاہم ہائی کورٹ میں کیس کی کل ہونے والی سماعت کے بعد اب تک جمع ہونے والے استعفے منظور کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
انھیں اس بات کا خدشہ تھا کہ عدالت انھیں سپیکر کے اختیارات استعمال کرنے سے روک سکتی ہے۔
اجلاس تاریخ میں توسیع، قانون کیا کہتا ہے؟
قومی اسمبلی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا ہے کہ ’سیکرٹریٹ حکام کی جانب سے قائم مقام سپیکر کو آگاہ کیا گیا ہے کہ سپیکر یا ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہو جانے کے بعد سات روز میں اس پر ووٹنگ لازمی ہے۔ اس لیے ان کا اجلاس کی تاریخ آگے کرنے کا اقدام قانون سے مطابقت نہیں رکھتا۔‘
حکام کا کہنا ہے کہ ’مجاز اتھارٹی جب بھی کوئی فیصلہ کرتی ہے تو سرکاری حکام اس میں اپنا ان پٹ دیتے ہیں لیکن فیصلے کا اختیار مجاز اتھارٹی کے پاس ہوتا ہے اور جب تک تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہو جاتی تب تک وہ سپیکر کے عہدے پر موجود ہیں۔ اس لیے وہ مجاز اتھارٹی ہیں۔‘
اجلاس کے شیڈول میں تبدیلی قائم مقام سپیکر نے قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے طریق کار 2007 کے قاعدہ 49 کی ذیلی شق 2(بی) کے تحت تفویض اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے کی۔
حکام کے مطابق ’قومی اسمبلی قواعد کے مطابق اگرچہ سات روز بعد تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانا لازمی ہے تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہوئی ہے اور وہ قائم مقام سپیکر بھی ہیں۔ اس صورت حال میں وہ قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے طریق کار 2007 کے قاعدہ 49 کی ذیلی شق 2(بی) کے تحت تفویض اختیارات استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں اس حوالے سے رولز خاموش ہیں۔‘
اسسمبلی کی نشست خالی کیسے ہوتی ہے؟
قومی اسمبلی کے قواعد کے مطابق رول 43 کے تحت کوئی بھی رکن قومی اسمبلی آئین کے آرٹیکل 64 کے تحت ہاتھ سے لکھا ہوا استعفیٰ سپیکر کے پاس جمع کرا سکتا ہے۔ اگر تو کوئی رکن خود استعفٰی جمع کرائے اور اپنے مستعفی ہونے کے بارے میں سپیکر آگاہ کرے اور سپیکر کو متعلقہ رکن پر مستعفی ہونے کے لیے کسی دباؤ کا علم نہ ہو تو وہ اس کا استعفیٰ قبول کرلے گا۔
اگر سپیکر کو کچھ معلومات ہوں کہ متعلقہ رکن کسی دباؤ میں استعفٰی دے رہا ہے تو وہ خود، اسمبلی سیکریٹریٹ یا کسی ایجنسی کے ذریعے معلومات حاصل کرکے اطمینان ہونے کے بعد استعفیٰ قبول کرتا ہے۔
اگر استعفٰی متعلقہ رکن نے کسی اور ذریعے سے بھجوایا ہو تو بھی سپیکر معلومات حاصل کرنے اور متعلقہ رکن کو طلب کرکے یہ اطمینان کر لینے کے بعد کہ استعفٰی رضاکارانہ طور پر دیا گیا ہے تب ہی منظور ہوگا۔
استعفیٰ منظور ہونے کے بعد سیکرٹری قومی اسمبلی نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے اور اسے سیٹ خالی قرار دینے کے لیے الیکشن کمیشن کو بھجوا دیتا ہے۔ الیکشن کمیشن اس نوٹیفکیشن کی بنیاد پر متعلقہ سیٹ کو خالی قرار دے دیتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ’اگر قاسم سوری نئے سپیکر کے انتخاب سے پہلے استعفے منظور نہ کرتے تو نیا سپیکر ارکان کو فرداً فرداً بلا کر تصدیق کرنے کا پابند تھا۔‘